یہ مسلمان جنہیں دیکھ کر............ ( حصہ اول)
تعلیم کی اہمیت اور ضرورت :
قرآن میں ارشاد باری ہے " اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ" پڑھو(اےنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا. یہی آیت قرآن کی اولین آیت ہے. غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ قرآن کا پہلا لفظ ہی ہمیں یہ حکم ریا ہے کہ ہم علم حاصل کریں. اگر ہم اس لفظ کے وسیع معنوں پر غور کریں تو بے شمار شگوفے ہمارے ذہن سے نکلتے ہوئے نظر آتے ہیں. جس مذہب کی ابتداء اقرا سے ہو ئی ہو علم کا حصول تو اس مذہب کے پیروکاروں کی سرشت میں شامل ہونا فطری عمل ہے. حصول علم مومن کی ترجیح ہوتی ہے. اور ہو بھی کیوں نا کہ ہمارے نبی کا ارشاد ہے "علم حاصل کرنے کے لیے چین تک جانا پڑے تو جا ؤ" لہذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ مومن کی شان نہیں کہ وہ علم حاصل نہ کرے. جب تک ہم نے علم کی کی رسی کو تھامے رکھا ہم سرفراز رہے. تاریخ شاہد جب سے ہم نے علم کو اہمیت دینی بند کی ہماری اہمیت کم ہو نی شروع ہوگئی. اقرا کو یہودیوں نے اپنایا ٥٠ سال کے قلیل مدت میں دنیا کی سب سے ترقی پذیر قوم بنی.ایک تحقیق کے مطابق ایک یہودی ایک سال میں کم از کم 40 کتابوں کا مطالعہ کرتا ہے جبکہ اسی تحقیق نے ہی ایک چوکانے والی افسوس ناک خبر دی ہے کہ ایک مسلمان سال بھر میں ایک کتاب کا بھی مطالعہ مکمل نہیں کر پا تاہے. یاد رہے کہ مسلمانوں کو ترقی کرنا ہے تو اخلاق، کردار اور تعلیم کو بہتر بنانا ہوگا
آئیے مسلمانوں کی تعلیمی عدم دلچسپی، مسلم اداروں کا کاروباری اڈہ بننا اور مسلم معلمین میں لیاقتوں کی کمی، اپنے پیشے کو کاروبار سمجھنےاور والدین کی نا امیدی جیسے موضوعات پر بحث کرتے ہیں.ویسے تو زوال پذیری کی دیگر بہت سی وجوہات ہیں مگر ہم ان بنیادی عناصر پر ہی توجہ دیں گے. مسلمان چونکہ اردو میڈیم اسکولوں سے زیادہ تر تعلیم حاصل کرتے ہیں. ہم اردو میڈیم ا سکولوں کو ہی ذہن میں رکھ کر بحث کریں گے.
لو، اب صدر صاحب کی بیٹی کی بھی شادی آگئی.ایک ماہ کی تنخواہ سے کم تھوڑی بھی رقم شہزادی کا حق ادا نہ کر سکے گی. لہذا تمام ملازمین کچھ مرضی سے، کچھ ظاہری مرضی سے اور کچھ عدم موجودگی میں باغی الفاظ کے ساتھ اپنی ایک ماہ کی معمولی رقم ادا کر کے فرض عین اداکردیتے ہیں. بادشاہ سلامت (جی ہاں بادشاہ سلامت کیوں کہ جناب صدر کیا بنے گویا ہفت اقلیم کی دولت ہاتھ آ گئ اور یہ اپنے آپ کو بادشاہ سے کچھ کم نہیں سمجھتے) اس رقم کو اس انداز میں مسکرا تے ہوئے قبول کرتے ہیں گویا کہ شہزادی کی پیدائش کے وقت ا اپنی ملیکہ عالیہ کو کہا ہو "بیگم لڑکی کی پیدائش پر ملول نہ ہونا. ہماری اسکول ہے نا. شادی کی فکر نہ کرو.سب انتظام ہو جائے گا. لہٰذا وعدہ کی تکمیل پر فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ تحفہ قبول کیا جاتا ہے باقی ماندہ رقم ایک بندے کو ملازمت دے کر حاصل کی جا چکی ہے. اس نئے بندے نے بھی ڈونیشن کے نام پر اچھی خاصی موٹی رقم دے کر ملازمت خرید لی ہے. اب آپ ہی بتائیے جن لوگوں کا اس طرح کا مزاج ہو وہ کیا خاک تعلیم دیںگے. تعلیم میں زوال نہیں تو کیا آئےگا. جو شخص ملازمت کو خرید رہا ہو وہ کیا خاک ایمانداری سے تعلیم دےگا. وہ اس ڈونیشن کی بھرپائی سائڈ بزنس کر کے نا کرےگا؟..اراکین انتظامیہ میں کئی باتیں یکساں پائی جاتی ہیں. جیسے سیاست سے تعلق، جھوٹ کی معراج، دھوکہ، اور بہت کم جگہ مگر ہاں عورتوں کا جنسی استحصال. فہرست تو بہت بڑی ہے مگر مضمون طوالت بوریت نہ پیدا کر دے اختتام کر رہا ہوں
اکبرآبادی نے کیا خوب کہا ہے :
یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا
افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی
(جاری ہے........... .....)
1)اردو ادارے اور ان کے ذمہ داران
اردو اسکولیں جنھیں ہم کاروبار کی بہترین آماجگاہ کہے تو کم نہ ہوگا، کی حالت بہت زار ہے. سرکاری اسکولوں سے لیکر نیم سرکاری یہاں تک کہ پرائیویٹ اسکولوں میں نظام تعلیم کا معیار دیگر زبانوں کی اسکولوں کے مقابلے میں ایسا ہے جیسے ہم نے تعلیم کا مفہوم ابھی ابھی جانا ہے. ایسا نہیں کی حکومت کی کو ئی امداد نہیں ہے. معلمین کو باقاعدہ تنخواہ دی جاتی ہے. باہری نظم و ضبط کےلئے اقلیتی اداروں کو خصوصی دو لاکھ روپے تک کی رقم الگ سے دی جاتی ہے. مگر ہم نے تو اسکولوں کو ایک بزنس سینئر بنا رکھا ہے نا؟ تو ان دو لاکھ کے جعلی بل لگانا کونسا مشکل کام ہے؟ اور مینجمنٹ باڈی اتفاق رائے سے پر سکون ہو کر اس مال غنیمت کو با قاعدہ آپس میں یوں تقسیم کر لیتی ہے گویا کہ ان پیسوں پر انکا پیدائشی حق تھا.پیسوں کا حساب کون لے گا؟ سر پرست ! نہیں نہیں. بیچاروں کو روز مرہ کے تھپیڑوں سےآزادی ملے تب نا؟ بیچاروں کو سمجھتا بھی نہیں.اساتذہ اکرام ؟ یہ کیا کہہ دیا آپ نے؟ معلمین تو غلام سے زیادہ نہیں. بھلا وہ کیسے حساب لے؟ صرف ایک ہی ہستی تانگ اڑا سکتی ہے. وہ ہے ہیڈ ماسٹر. مگر جناب کچھ بولے اس سے پہلے ہی مڈڈے میل سے انکا منہ بند کر دیا جاتا ہے.ان تمام حکمتِ عملی (مکاری) کے بعد بھی کوئی گنجائش بچتی ہے کیا بھلا ؟ کہ ادارے کا تعلیمی معیار کچھ اونچا ہوگا. رہی سہی کسر یہ بزنس مین ناکارہ اور نا اہل رشتے داروں کو معلمین بنا کر پوری کر دیتے ہیں. یہ بزنس مین ایمانداری سے اپنا بزنس چلاتے ہیں . جو زیادہ پیسے دےگا نوکری اسکی.. ہمیں اس سے کچھ سروکار نہیں ہے کہ ٹیچر قابل ہے یا نہیں. اسے اردو آتی بھی ہے یا نہیں.اب آپ ہی بتائیے کہ مراٹھی یا انگریزی میڈیم سے فارغ بندہ اردو کے بچوں کا معیار کتنااونچی کر سکتا ہے؟ اور اس بندے کا اردو ادارے پر کیا کام؟ . ارے ہاں، ایک اور بات. ان اداروں میں یہ ناکارہ ٹیچرز بڑی سکون کی زندگی گزارتے ہیں. مینجمنٹ ان چند مٹھی بھر اساتذہ کو ہی تکلیف پہنچاتا ہے جو واقعی میں ایماندار، قابل، پر چوش، کچھ کر گزرنے کی خواہش رکھنے والے بندے ہوتے ہیں.لو، اب صدر صاحب کی بیٹی کی بھی شادی آگئی.ایک ماہ کی تنخواہ سے کم تھوڑی بھی رقم شہزادی کا حق ادا نہ کر سکے گی. لہذا تمام ملازمین کچھ مرضی سے، کچھ ظاہری مرضی سے اور کچھ عدم موجودگی میں باغی الفاظ کے ساتھ اپنی ایک ماہ کی معمولی رقم ادا کر کے فرض عین اداکردیتے ہیں. بادشاہ سلامت (جی ہاں بادشاہ سلامت کیوں کہ جناب صدر کیا بنے گویا ہفت اقلیم کی دولت ہاتھ آ گئ اور یہ اپنے آپ کو بادشاہ سے کچھ کم نہیں سمجھتے) اس رقم کو اس انداز میں مسکرا تے ہوئے قبول کرتے ہیں گویا کہ شہزادی کی پیدائش کے وقت ا اپنی ملیکہ عالیہ کو کہا ہو "بیگم لڑکی کی پیدائش پر ملول نہ ہونا. ہماری اسکول ہے نا. شادی کی فکر نہ کرو.سب انتظام ہو جائے گا. لہٰذا وعدہ کی تکمیل پر فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ تحفہ قبول کیا جاتا ہے باقی ماندہ رقم ایک بندے کو ملازمت دے کر حاصل کی جا چکی ہے. اس نئے بندے نے بھی ڈونیشن کے نام پر اچھی خاصی موٹی رقم دے کر ملازمت خرید لی ہے. اب آپ ہی بتائیے جن لوگوں کا اس طرح کا مزاج ہو وہ کیا خاک تعلیم دیںگے. تعلیم میں زوال نہیں تو کیا آئےگا. جو شخص ملازمت کو خرید رہا ہو وہ کیا خاک ایمانداری سے تعلیم دےگا. وہ اس ڈونیشن کی بھرپائی سائڈ بزنس کر کے نا کرےگا؟..اراکین انتظامیہ میں کئی باتیں یکساں پائی جاتی ہیں. جیسے سیاست سے تعلق، جھوٹ کی معراج، دھوکہ، اور بہت کم جگہ مگر ہاں عورتوں کا جنسی استحصال. فہرست تو بہت بڑی ہے مگر مضمون طوالت بوریت نہ پیدا کر دے اختتام کر رہا ہوں
اکبرآبادی نے کیا خوب کہا ہے :
یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا
افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی
(جاری ہے........... .....)