رِندانِ فرانسیس کا میخانہ سلامت
پُر ہے مئے گُلرنگ سے ہر شیشہ حلَب کا
ہے خاکِ فلسطیں پہ یہودی کا اگر حق
ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہلِ عَرب کا
مقصد ہے مُلوکیّتِ انگلِیس کا کچھ اور
قصّہ نہیں نارنج کا یا شہد و رُطَب کا
الفاظ معانی :
(رند = لا مذہبی، آزاد زندگی والے شرابی ، حلب = ملک شام کا ایک شہر، ہسپانیہ = اسپین، ملوکیت = حکومت، رطب : کھجور، نارنج = ایک پھل
نثری مطلب
رِندانِ فرانس کا میخانہ سلامت رہے،
فرانس اس زمانہ میں ہر وقت خوشنما گلابی شراب سے بھرا رہتا ہے۔
(یعنی یورپ کی عیش پرست قومیں اپنی رنگ رلیوں اور خوشگزار زندگی میں مگن ہیں۔)
اور اگر یہودیوں کا فلسطین کی سرزمین پر حق مانا جاتا ہے،
تو پھر اسی اصول کے مطابق عربوں کا بھی اسپین (ہسپانیہ) پر حق ہونا چاہیے۔
(یعنی یورپ دوہرے معیار رکھتا ہے—یہودیوں کے تاریخی دعوے کو تو قبول کرتا ہے مگر عربوں کے عظیم ماضی اور اسپین پر صدیوں کی حکومت کو نظرانداز کرتا ہے۔)
انگلستان کی بادشاہت کے اصل مقاصد کچھ اور ہیں،
یہ معاملہ نارنج، شہد یا کھجور جیسے پھلوں کی ۵جارت نہیں ہے۔بلکہ ان کا مقصد سیاست میں حصہ لے کے طاقت حاصل کرنا ہے
(یعنی انگلستان کی سیاسی چالوں، قبضہ گیری اور سامراج کے پیچھے اصل مقصد صرف طاقت، سیاست اور مفادات ہیں—یہ کسی معمولی تجارتی اعتراض یا علاقائی بحث کا مسئلہ نہیں۔)
ادبی نثری مفہوم
فرانس کے آزاد خیال اور عیش پرست لوگوں کی سرزمین آج بھی اپنی رنگین محفلوں اور شراب خانوں سمیت پوری آب و تاب سے قائم ہے، جہاں ہر جام خوش رنگ مَے سے لبریز ہے۔
دوسری طرف دنیا عدالت اور حق کے نام پر عجیب پیمانے بنا رہی ہے—اگر محض تاریخی نسبت کی بنیاد پر یہودیوں کو فلسطین پر حق دار سمجھا جاتا ہے، تو پھر اسی اصول کے تحت عرب اقوام کو بھی اسپین پر دعویٰ کرنے کا حق ہونا چاہیے، کہ وہاں وہ صدیوں تک اپنی تہذیب و حکمرانی کے چراغ روشن کرتے رہے۔
رہی بات انگلستان کی، تو اس کی سلطنت کے پسِ پردہ اصل مقاصد کچھ اور ہیں—یہ بحث نارنج، شہد یا رُطب جیسے معمولی چیزوں کی تجارت نہیں، بلکہ سیاسی مفادات، اقتدار اور سامراجی عزائم کی ہے، جنہیں چھپانے کے لیے طرح طرح کے بہانے تراشے جاتے ہیں۔
تشریح:
1. “رندانِ فرانس کا میخانہ سلامت” — یورپ کی تہذیبی مستیاقبال یہاں فرانس اور یورپ کی عیش پسندی، ان کے تہذیبی غرور اور مادہ پرستی کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
فرانس اس زمانے میں
فکری آزادی،
لادینیت،
شراب و عشرت،
اور انفرادی بے باکی
کی علامت سمجھا جاتا تھا۔
اقبال کہتے ہیں:
یورپ اپنی مستی، رنگینی اور آزادی کے نشے میں ہے، دنیا پر حکومت بھی کر رہا ہے اور اپنی تہذیب کو بہترین بھی سمجھتا ہے۔
---
2. “خاکِ فلسطیں پہ یہودی کا اگر حق…” — دوہرے معیار کا پردہ فاش
انیسویں اور بیسویں صدی کے آغاز میں
یورپ نے فلسطین میں یہودی آبادکاری کی کھلی حمایت کی۔
اقبال کے زمانے میں یہودیوں کا فلسطین پر تاریخی حق کا دعویٰ زوروں پر تھا۔
اقبال کہتے ہیں:
اگر تم ہزاروں سال پہلے کے ایک تاریخی تعلق کو بنیاد بنا کر فلسطین یہودیوں کو دے سکتے ہو تو پھر اسلامی اسپین (اندلس) بھی عربوں کو واپس دینے کے قابل ہے، کیونکہ وہ وہاں آٹھ سو سال حکومت کر چکے!
یہ جملہ یورپ کے دوہرے اخلاقی معیار کو نمایاں کرتا ہے۔
---
3. “مقصد ہے ملوکیتِ انگلِیس کا کچھ اور…” — برطانوی سامراج کی اصل چال
اس دور میں انگلستان دنیا کی سب سے بڑی طاقت تھا۔
عرب دنیا تقسیم کی جا رہی تھی،
نئی ریاستیں بن رہی تھیں،
تیل کی سیاست شروع ہو چکی تھی،
فلسطین کا مسئلہ شدت پکڑ رہا تھا۔
اقبال کہتے ہیں:
انگلستان کے اصل مقاصد سیاسی اور سامراجی ہیں۔
یہ معاملہ نارنج، شہد یا کھجور جیسے چھوٹے مسائل کا نہیں—
بلکہ مشرق وسطیٰ پر قبضہ، تیل کے ذخائر، تجارت اور عالمی حکمرانی کا ہے۔
ان چھوٹے پھلوں کا ذکر طنزیہ ہے، یعنی:
"یہ تو محض بہانے ہیں، اصل میں مقصد کچھ اور ہے!"
---
4. مکمل پیغام
ان اشعار میں اقبال بتاتے ہیں کہ:
یورپ خود کو مہذب کہتا ہے مگر دنیا پر حکمرانی کے لئے اخلاقی اصولوں کو بدل دیتا ہے۔
مشرق کی قوموں کو تقسیم، کمزور اور منتشر رکھنے کے لئے طرح طرح کی دلیلیں گھڑتا ہے۔
فلسطین، اسپین اور عرب دنیا سب اس دوہرے معیار کا شکار ہیں۔
اقبال قاری کو یہ احساس دلاتے ہیں کہ طاقتور اقوام کے فیصلے انصاف پر نہیں بلکہ مفاد پر مبنی ہوتے ہیں۔

No comments:
Post a Comment