مسلمان اور مادری زبان سےعدم دلچسپی
جمیعت علماءِ ہند ایک ایسی جمیعت ہے جو ملک میں مظلوم لوگوں خصوصاً مسلمانوں کے لئے آواز اٹھاتی ہے، انکی پیروی کرتی ہے۔ یہ قابلِ تعریف بات ہے اور اس پر اعتراض کرنے والا عدل سے متنفّر گردانا چاہیئے۔
جیسا کہ نام سے ظاہرہے، یہ علماء کی ایک جماعت ہے۔ اسطرح کا ادارہ چلانے کے لئے روپیہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اکثر مسلمانانِ ہند خود کو نفسیاتی طور پر تقسیمِ وطن کا مجرم مانتے ہیں جو کہ ایک خامی ہے۔ تقسیمِ وطن کا ذمّہ دار مسلمانِ برِصغیر نہیں بلکہ وہ ذات و فرقہ پرست عناصر ہیں جو بدقسمتی سے برسرِ اقتدار ہیں۔ ۷۴۹۱ ء میں ملک جغرافیائی طور پر تقسیم ہوا، نیا ملک لسانی بنیاد پر تقسیم ہوا لیکن لوگوں کے ہوش ٹھکانے نہیں آئے۔ سیکولرزم، جسکی اصلیت اپنے آپ میں بحث کا موضوع ہے، اسکا ڈھنڈھورا پیٹا گیا کہ متعدد مسلم و اقلیت کش فسادات، بشمول بابری مسجد ملک کی مساجد اور کچھ گرجا کے وجود کا مٹ جانا وہ احساس نہیں کراسکا جتنا ہونا چاہیئے۔
مسلمان کا پچھڑا ہونا اسکے مسلمان ہونے قرار دیا گیا جبکہ فرقہ پرستی اور منافرت اسکی اصل وجہ ہے اور جاری ہے۔ ملک کے غیر مسلم عوام اسی شش و پنج میں اپنے حقوق سے محروم کئے جاتے رہے اور اسی لئے حقوق حاصل کرنے کی تحریکیں ملک میں جاری ہیں۔ حکومت ان سے دہشت گردی ختم کرنے کے نام سے نبردآزما ہے لیکن ذات پرستوں پر کوئی الزام تک نہیں لگاتا۔
مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے سبب آج کا دیندار طبقہ تک عملاً کیا کریگا، فکری و ذہنی سوچ سے بھی قاصر ہے۔ جمیعت کی مظلوم نواز کوششیں تک حکومت کی آنکھ کا کانٹا ہیں۔
لیکن، اگر حق کے لئے، ظلم کے خلاف قدم سے کسی حق گو کو ذہن، مال یا جان کا نقصان بھی اٹھانا پڑے تو کیا نقصان کا سودا ہے؟ عام لوگوں سے پہلے یہ ذی ہوش، مالدار طبقہ پر فرض کے زمرہ میں یہ عائد ہوتا ہے کہ جو وسائل ہمیں میسّر ہیں ان کو بروئے کار لایا جائے۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو فسادی حالات میں مال و جان کا ضیاع تو ہوگا ہی، صاحبِ وسائل پر گرفت بھی ہوگی۔ ان سب سے پہلے صاحبِ فکر پر گرفت ہوگی اسی لئے ہم یہ وقت لگاکر کڑوی بات کرنے پر مجبور ہیں۔ ہمارے بعد جمیعت کی باری کہ وہ ایک ادارہ ہے۔
اپنے کام کے لئے وسائل جمع کرنے کی فکر جمیعت نے کی۔ ہم نے ایک اشتہار دیکھا جو کلی طور پر ناگری میں تو تھا ہی لیکن اسمیں استعمال اصطلاحات ایسی تھیں مانو کسی مندر یا آر ایس ایس، وی ایچ پی کی رکنیت کا اشتہار ہو۔ جمیعت کے ذمہ دار اس اشتہار کو یاد کریں تو انہیں غصّہ کم آئے۔ یہ بات تنقید برائے تنقید نہیں بلکہ ہماری اجمالی طرزِ فکر کی خامیوں کو اجاگر کرنا ہے۔ الزام نہیں بلکہ تجزیہ کرنا مقصود ہے کہ طرزِ فکر میں خامی کا تدارک ہوسکے۔
اوّل تو یہ کہ وسائل کے حصول پر کسی کو اعتراض نہیں ہو لیکن اشتہار پہلے تو جمیعت کی رکنیت کا تھا جبکہ جمیعت کا رکن عالم ہی ہانا چاہیئے۔ اگر صرف عالم ہی رکن ہوگا تو بھیٖڑ کا احتمال نہیں رہیگا۔ رہی بات وسائل کی تو رکنیت کی بجائے یہ کہا جاتا کہ رکن تو صرف عالم بن سکتا ہے البتہ امداد کرنا ہر ایک کا فرض ہے رکنیت کی فیس بہت کم تھی لیکن پھر بھی ہماری تساہل زدہ برادری نے کان نہیں دھرے۔ وجہ ناگری میں اشتہار اور مساجد میں اعلان کرنے والوں کا حاکم زبان میں اصطلاحات پر زور تھا۔ حکومت کو پرشاسن، سرکاری اہل کار کو ادھیکاری کہنے سے لوگوں کو سمجھتا نہیں بلکہ وہ اسی لفظ کا استعمال شروع کردیتے ہیں کہ فلاں مولانا نے ایسا کہا ہے۔
دوم یہ کہ اگر کچھ کو اردو نہیں آتی تو اس ناقص اقلیت کو یہ باور کرانے کے کہ مادری زبان سب کو آنی چاہیئے، ہم خوشامدانہ مزاج جو ہوگئے ہیں ان کو ناگری میں لکھ کر خوشامد کررہے ہوتے ہیں۔ کسی مندر میں انگریزی تک میں کچھ لکھا نہیں ہوتا حالانکہ ہندو طبقہ انگریزی میں ہی تعلیم حاصل کررہا ہے۔ ایسا اسلئے کہ انگریزی کے ساتھ ساتھ وہ مادری زبان بھی سکھاتا ہے۔ ہم ہیں کہ مادری زبان کو پچھڑے پن کی وجہ دل سے مان چکے ہیں، اسکی مادری زبان کو سرکاری زبان مان لیتے ہیں۔ ہم یہ بھول جاتےہیں کہ اگلے درجات میں سرکاری زبان بھی پڑھائی جائیگی۔ اسطرح اپنی خود کے قائم کردہ مدارس(اسکول) میں بھی ہم مادری زبان کی بجائے سرکار یعنی صوبائی زبان پڑھانے لگتے ہیں۔ اس سے بڑی خامی ہم یہ کرتے ہیں کہ ملک کی "قومی" زبان بناتے ہی نہیں بلکہ اس پر عمل پیرا بھی ہوتے ہیں۔ اول تو ملک کی کوئی قومی زبان نہیں ہے دوسرے ہم اس خودساختہ زبان کی وجہ سے بے وقعتی کا شکار ہوتے ہیں۔ اردو ملک گیر زبان ہے اسلئے یہ قومی زبان کی خام خیالی کا خمیازہ یہ ہے کہ جنوبی ریاستوں میں جہاں اردو کو ایک طاہم زبان مانا جاتا اب ریاستیں ہندی کہتی ہیں۔ حال تو یہ ہے کہ حیدرآباد جیسے مقام پر اردو پڑھائی نہیں جاتی اور سہ لسانیت کی مار ہم خود ہی ہندی پڑھا کرلیتے ہیں۔ حد تو اس وقت ہوتی ہے کہ ایک ہندوستانی انجینیئر، امریکہ جانے کی تیاری میں گھر میں انگریزی بولنا لازمی قرار دیتا ہے۔ یہاں بچّے تو اردو پڑھتے نہیں بلکہ ان پر کم عمری سے ہی انگریزی کا بے جا بوجھ ہوتا ہے، مراہٹی اور ہندی جیسی مادری(دراصل ریاستی) اور خود ساختی قومی زبان سکھائی جاتی ہیں۔ دو شٗد تو اس وقت ہوتا ہے جب اس انجینیئر کی ملاقات کسی شناسا سے امریکہ میں ہوجائے۔ ذی ہوش شخص کے پوچھے جانے پر کہ بچّوں کو اردو نہیں آتی، جواباً یہ نہیں کہتا کہ نہیں بلکہ کھیانہ ہو کر بچّوں کو آواز دیکر یہ انگریزی میں کہتا ہے کہ بچّو، انکل سے "ہندی" میں بات کرو!
حضرات، ہماری بات کو لوگ طویل ہونے کا، عدم فرصتی کا، لسانی دشمنی کی الزام تراشی، سب بہانے کرینگے کیونکہ سب کو یہی لگییگا کہ یہ بات انہی کے لئے لکھی گئی ہو۔ علماء حضرات بھی یہ کہینگے کہ ایسے کام نہیں چلتا۔ اگر ہمیں کام چلانا ہی ہے تو پھر ہم تشخصی اختلاف سے کام کیوں لیں۔ دین ہمارا مختلف کیوں ہو؟ زبان ہم کیوں نہ اعلاناً چھوڑدیں کی علماً چھوڑ چکے ہیں۔ لباس کو لبادہ بھر رہ کر کیوں فسادیوں کا شکار بنیں۔ کیوں نہ ذات پات کے نظام کی پانچویں اور سب سے نچلی نئی ذات بن جائیں۔
جب ہمارے ذہن خودی کی بجائے خود سے باہر نہیں آنا چاہتے تو پھر برادری، قوم یا ملت جیسے اجتماعی ہونے کا ڈھونگ کیوں کریں۔ سب میں مدغم ہوجائیں کہ اس سے "امن" قائم ہوجائیگا؟
کیا آقاﷺ نے اسی لئے دعوتِ حق دی تھی، کیا اللہ کا حکم یہی تھا؟ اگر ہاں تو شکایت نہ کریں اور اگر نا تو پھر کمر بستہ ہوکر مقصدِ زیست پر عمل پیرا کیونکر نہ ہوں!
تحریر ازطرف محمد قیصر فاروق، بالاپور ضلع آکولہ