XI CLASS URDU

Followers

About Me

My photo
Manora ,District :Washim 444404, Maharashtra , India

Monday, 20 April 2020

دنیا اپنے خاتمہ کے آخری مرحلہ پر ہے

                    دنیا اپنے خاتمہ کے  آخری مرحلہ پر ہے


                 اللہ نے فرشتے اور جن جیسی مخلوقات کے باوجود انسان کو بنایا آدم کی شکل دی۔ فرشتوں نے کہا کہ تو آدم کیوں بناتا ہے جبکہ تیری حمد و ثنا کے لئے ہم تو ہیں لیکن اللہ تو خالقِ مطلق ہے۔ فرشتے تو خاموش ہوگئے لیکن ابلیس جو جن تھا اس نے حکم عدولی کی اور ملعون ہوا۔ ابلیس دراصل اپنی انا کی وجہ سے مایوس ہوا،اسلئے اس نے ایک بار بھی توبہ کرنے کا نہیں سوچا۔ انسان کو اللہ نے توبہ جیسی بڑی نعمت دی ہے۔ توبہ جسے ہم استغفار کہتے ہیں بہت اہم چیز ہے۔
                  انسان کو آدم کی شکل میں زمین پر بھیج کر اللہ نے امتحان رکّھا ہے۔ اس نے پہلے احکامات اور ڈرانے والے بھیجے۔ کمزوروں کیلئے توفیق جیسی سہولت بھی عنایت کی۔ ویسے اسکے احکامات آدمؑ سے محمدؐ تک ایک ہی تھے لیکن قرآن جو آخری احکام ہیں اس میں انسانوں سے ہر معصیت کے خلاف جدوجہد کرنے کا حکم دیا۔ ایک چیز جسکے خلاف اللہ نے ذاتی طور پر اعلان کیا وہ سود ہے۔ سود گناہِ کبیرہ ہے، اتنا بڑا کہ اسکے بارہ میں بہت وعیدیں آئی ہیں۔ تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔ اسلئے کہ آجکل تاویل نکالنے میں لوگ بہت وقت صرف کرتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ نے آدم کو سجدہ کرنے کا حکم دیا اور انکار پر پھٹکار لگائی، حکمِ سود پر بھی عمل پیرا ہونا ہوگا، بلا تاویل کے کہ انکار پر پھٹکار ہے۔پھٹکار کیوں پڑرہی ہے؟ پٹھکار کے باوجود اللہ جو رحیٖم ہے بندوں کو موقع دیتا ہے کہ توبہ کرو لیکن کرتے ہی نہیں۔ دنیا کی چیزوں کا پیچھا کرنے والوں کا اللہ روزِ آخرت میں کوئی وزن نہیں رکّھے گا، یہی تو سورۂِ کہف کی آخری آیات میں لکھا ہے!
                  سود سے اجتناب بہت آسان ہے اگر انسان تجزیہ کرے۔ ہمارے پاس دنیا کی تعلیم ہو تب بھی کوئی یقین دہانی ہے کہ عزّت کی جائیگی۔ کیا فسادات میں ڈاکٹر یا انجینئر مارے نہیں گئے؟ مارنے والوں کے پاس کیا بہتر سندیں تھیں۔ کیا بڑا گھر ہو تو مکین کی جان کی امان دی جاتی ہے؟ کیا چھوٹا یا کچّا گھر ہو تو انکی جان سب سے پہلے لی جاتی ہے۔ تنخواہ کو خرچ کرنے کی بجائے مزید کمانے کا سامان کرنے کی جستجو ہو تو پھر کیا ہو؟ مزدوری کرتے وقت دیانتداری سے کام کیا تو کیا برکت نہیں رہتی؟
                      ایک بار مسجد میں حلقہ کے بعد کسی نے کہا کہ محلّہ کا ہر دوسرا گھر مزید توسیع کیا جارہا ہے اور اسکے لئے سود پر قرض لیا جاتا ہے۔ کچھ روز پہلے مکان والا پریشان تھا کہ اسکی ملازمت ذات کی بنیاد پر ملی تھی اور ذات حق ہے یا باطل اسکے نوکری پر سوال تھا۔ وہ نوکری جانے اور تنخواہ پر لئے گئے قرض کے لئے فکر مند تھا۔ پھر جیسے تیسے اس نے اپنی ذات کو حق بجانب کیا تو سب بھول گیا۔ بیوی کے ساتھ اسطرح دو افراد نے حج بھی کرلیا۔ پہلا قرض جاری ہے۔ پھر گھر کی مزید توسیع کیلئے قرض لیا۔ پیشہ استاد کا ہے لیکن خود کی زبان ایسی کہ کوئی ہندو بنیا بھی شرما جائے کہ بھائی پنڈت سے زیادہ جعلی سرکاری زبان بولتے ہیں۔ہماری اس جھوٹی ذات کی ملازمت، سود پر سود کے قرض اور حج!ہمارے انہی اقدام پر قرآن میں وعیدیں آتی ہیں لیکن ہم قرآن پر قرآن تلاوت کئے جاتے ہیں لیکن فائدہ نہیں۔ ہمیں لگتا ہے کہ کسی جادوگر یا پنڈت کے منتر پڑھ لینے کی طرح جلد جلد قرآن پر انگلی پھیر کر پڑھ لینے سے ثواب مل جائیگا، ویسے ہی جیسے ہم غیر زبان میں، خلط ملط الفاظ کی کوئی حدیث اور اسکا ترجمہ پڑھتے نہیں، سمجھتے نہیں لیکن بھیج دیتے میرا مطلب ہے سنیڈ کردیتے ہیں۔ یہ تو ایسے ہوا کہ پیسہ کے عوض ثواب خریدنا!
                     
               مسجد میں ایک نوجوان کہنے لگا کہ پھر اگر قرض سے ٹرک نہ خریدا تو ترقی کیسے ہوگی؟ قرض لیکر ایم بی اے نہیں کیا تو ترقی کیسے ممکن ہو؟ اگر دادا کا وہ کھیت جو مسجد کے متولّی ہونے کی وجہ سے انکی ذمّہ داری تھا، اسے بیچ کر ایم ڈی، ایم بی بی ایس نہیں کیا تو ترقی کیسے ہوگی؟ اگر استاد صاحب قرض لیکر گھر نہیں بڑھاتے تو بٗڑھاپہ میں کیا کھائینگے؟
جواب یہ ہے کہ اگر تعلیم حاصل کرنے کے وقت ادھر ادھر کرنے، ابا کی جیسی تیسی چلتی دوکان پر وقت گزاردینے کے، کسی جگہ رشوت بنام ڈونیشن دے کر نوکری حاصل کرلینے کا سوچنے کی بجائے وہ تعلیم حاصل کرتے جس کی ہمارے استعداد ہے، جسمیں ہمیں دلچسپی ہو تو پھر اس معیاری تعلیم کی وجہ سے ہمیں روزگار مل جاتا۔ ہم نوکری کے حساب سے تعلیم حاصل کرنے کی بجائے اگر پسند کی تعلیم حاصل کرتے تو پھر بھیڑ میں جسکے پاس پیسہ اسکی نوکری کیلئے پانچ کے پچاس لاکھ نہیں دینے پڑتے۔ اس سب کے گزرجانے کے بعد پھر مجبوراً قرض لیکر ٹرک چلانا، ایندھن کے دام جو بھی ہوں کرایہ کا نہ بڑھنا، بڑھتا سود اور ہر ماہ قسط کی ادائیگی کیلئے پریشان نہ رہنا پڑتا۔ ٹرک چلایا یا نہیں ہم سے یہ نہیں پوچھا جائیگا البتہ ٹرک چلایا تو سودی قرض لیا کیوں تھا یہ سوال ضرور ہوگا۔
استاد سے یہ سوال ہوگا کہ نچلی ذات کا نہ ہوتے ہوئے بھی جھوٹ بول کر نچلی ذات کا کیوں بنا؟ جس جگہ تدریس کرتا تھا وہاں مقیم کیوں نہیں تھا؟ اردو کی تعلیم کیلئے معمور، خود کے بچّے اردو کیوں نہیں پڑھتے؟ مطلب آپکی تعلیم دینا ناقص اور تم اسے مان کر نقص دور نہیں کرتے، روزی حلال نہیں کرتے جو پہلے ہی دو بار مشکوک ہے! سب برابر ہیں اسکے لئے کوشش کرنے کی بجائے ذات پات کے نظام کو ختم کرنے کا سوچا ہوتا، لیکن نہیں اسمیں خوشی سے شامل ہوا۔ پھر قرض پر قرض لیا، حج مقروض پر فرض نہیں اسلئے گناہ پر گناہ کو گناہ لازم۔
ایم بی اے کرکے موٹی تنخواہ پانا گناہ نہیں لیکن اسکی بنیاد اگر سودی قرض ہے تو معمولی بابو بننے پر اکتفا کرتا۔ مینیجر کیوں نہیں بنے یہ سوال آخرت میں نہیں ہوگا۔
ابّا نے دادا سے یہ سوال نہیں کیا کہ مسجد کا کھیت یا گاؤں کی جاگیر آپکے نام کیسے کرلی؟ نام نہاد اونچی ذات کے تھے تو ماں بھی بگڑے دماغ کی آئی۔ غیروں کی "اعلیٰ" اسکول میں منت، سماجت اور ساری کمائی لگاکر پڑھایا۔ بچّہ کو اردو کا الف اور عربی کا اللہ نہیں دکھایا۔ پھر بھی میاں گِری کی اسلئے سرکاری میڈیکل کالج میں نمبر نہیں آیا۔ پھر جّگاڑ لگایا۔ سویت ہونین کے ایشیائی ممالک میں قائم کردہ میڈیکل کالج کے دلال "سر" کا رابطہ ہاتھ آیا۔ تاجکستان، کرغیزستان سب کو جہالت میں روس کیا رشیا بنایا۔ انہی میں سے کسی کو مغرب یعنی ولایت کا خیال آیا تو مغرب یعنی جرمنی، فرانس یا برطانیہ تو کیا ہاتھ پّرتا، بلغاریہ بھی راس آیا۔ وہاں داخلہ کیلئے مسجد کا پچایا کھیت بیچا تو بچّہ کھانے کی خرابی کی وجہ سے بھاگ آیا یا پھر جم ہی گیا تو ایم بی بی ایس کا محض کاغذ ساتھ لایا۔ اب صرف ایم بی بی ایس سے کام نہیں چلیگا کا کیڑا امّی کا کاٹ چکا تھا، کسی خاصگی کالج سے ایم ایس تو نہیں ہوتا، ایک کروڑ دیکر ایم ڈی کی سند چھاپنے کا طے پایا۔
چونکہ معالج یعنی ڈاکٹر تو سند کا نہیں عمل کا کام ہے، سرکاری ڈاکٹر بننے کا خیال آیا، لیکن کیا پھر سے ۵۰ لاکھ روپیہ نکل پایا!
                            سودی کاروبار سے لڑکر بغیر جان گنوائے شہید کا درجہ ملتا لیکن میاں کو مسلمان بننے سے زیادہ "کوالٹی لائف" جینے کی پڑی رہتی ہے۔ انکی نظر میں حق وہی ہے جس کی ذریعہ ان کو محنت نہ کرنی پڑے اور پیٹ بڑا ہونے کا سامان رہے۔ دواخانوں میں جانا، باہر کھانا، عمدا عمارت میں رہنا بھلے ہی اسکی صفائی کی سّدھ گھر میں نہ ہو، ارمانوں کے انبار ہونا۔۔۔۔۔
روزہ نماز سامنے والوں کے مزاج کے مطابق بتاتے ہیں کہ رشتہ ہاتھ سے نہ جائے۔۔۔۔
                           






         

Sunday, 12 April 2020

2)سپاہی اور بٹ مار

            2)سپاہی اور بٹ مار









(*)ہدایات کے مطابق درج ذیل سرگرمیاں مکمّل کیجئے
1)سپاہی کے زمانے کے روپیے، ارزانی اور سپاہی کی تنخواہ سے متعلق معلومات لکھیے

2)سبق پڑھ کر اس زمانے کی طرزِ معاشرت کی تفصیل تحریر کیجئے

3)تباہ حال بڑھیا کی مدد کے لیے سپاہی کے خیال کی وجہ قلم بند کیجیے

4)رہزنی کی واردات کو اپنے الفاظ میں بیان کیجیے

5)بٹ ماروں کے ذریعے جکڑے ہوئے سپاہی کے محسوسات اور خدشات کو لکھیے

6)سلطان کے ذریعے رعایا کی بہبودی کے لیے کیے جانے والے کاموں کے بارے میں لکھیے                        (یا)

(*) اسباب بیان کیجیے
1)مفتی اعظم کے فرمان کا لکھا جانا

2)سپاہی کا اپنے آپ پر لعنت کرنا

(*) استحسانی وضاحت کیجیے
1)برساتوں میں ندی پر دریائے اعظم کا گمان ہونے لگتا ہے

2)اس علاقے کو خلق اللہ طنزاً پٹ پڑ گنج کہنے لگی تھی

3)واللہ! وہ بھی کیا زمانے تھے. بارہ برس میں میرا درماہہ بارہ تنکے سے بڑھتے بڑھتے بیس ہو گیا تھا

4)جیٹھ نکل کر اشاڑھ کی آمد آمد تھی جب میں نے گھر جانے کا ارادہ کیا

5)اکیلے دکیلے کا اللہ بیلی:


پس منظر:
اس کہاوت سے متعلق ایک بڑھیا کی دلچسپ حکایت ہے ،جو یہ ہے:
دہلی سے دس میل کے فاصلے پر ایک نالا تھا جہاں درختوں کے جھنڈ بکثرت تھے۔ایک بڑھیا اس جگہ بیٹھ کر بھیک مانگا کرتی تھی اور اس کے بیٹے پوتے ان درختوں کے جھنڈ اور جھاڑیوں کی اوٹ میں چھپ کر بیٹھ جایا کرتے تھے۔جب ایک دو آدمیوں کا وہاں سے گزر ہوتا تھا تووہ بڑھیا پکار کر کہتی تھی’’اکیلے دکیلے کا اللہ بیلی‘‘۔بڑیا کے یہ جملے سن کر اس کے بیٹے پوتے سمجھ جاتے تھے کہ کوئی تنہا شخص گزررہا ہے یا اس کے ساتھ دو ایک آدمی ہوں گے۔لہٰذا وہ لوگ فوراً گھات سے نکل کر اس آدمی کے مال و اسباب کو لوٹ لیا کرتے تھے۔اور اگر وہ مقابلہ کرتا تو اس کو ماڑ ڈالتے۔اس کے بر عکس جب کئی آدمی مل کر وہاں سے گزرتے تو وہ ٹھگوں کی نانی آواز لگاتی’’جماعت سے کراہت ہے‘‘یا’’جمعہ جماعت کی خیر۔‘‘اس وقت وہ راہزن اپنی گھات سے باہر نکلنے سے باز رہتے کیونکہ بڑھیا کے ان جملوں سے وہ سمجھ جاتے تھے کہ ایک ساتھ کئی آدمی آ رہے ہیں۔مدت تک یہ سلسلہ جاری رہااور لوٹ مار ہوتی رہی۔آخرکار جب وہ بڑھیا اور اس کے بیٹے پوتے ایک روز پکڑے گئے تو ان صداؤں کا بھید کھلا۔کچھ دنوں کے بعد اس بڑھیا نے اس نالے پرایک پل بنوایا جو فریدآباد کے نزدیک بڑھیا کے پل کے نام سے مشہور ہوا۔
6)بندے کا بال بال آپ کے احسان سے گندھا رہے گا

(*) ذیل میں دیے ہوئے موضوعات پر ذاتی رائے تحریر کیجیے
1)سلطان کا فرمان
2)اس سبق کے حوالے سے کل اور آج میں نظر آنے والا فرق
3)نیک شگون یا بد شگون
4)غصے میں سپاہی کا بدزبانی کرنا
5)'ہمیں مصارف شادی میں کفایت شعاری سے کام لینا چاہیے'
نوٹ : طلبہ ذاتی رائے کی سرگرمی از خود حل کریں
(*) ہدایت کے مطابق درج ذیل قواعد ی سرگرمیاں مکمّل کیجئے


جواب:1)وقت اتنا گزر گیا تھا کہ مجھے اسکا کچھ علم نہ تھا کہ مغرب ہو چکی تھی 
2)وقت اتنا گذر گیا تھاکہ مجھے  اسکا کوئ علم نہ ہوا مگر مغرب تو ہو چکی تھی۔
3)حالانکہ کہ وقت کتنا گزر گیا تھا پھر بھی مجھے اسکا علم نہ ہوا اور مغرب ہو چکی تھی
4)سبق میں استعمال کئے گئے دس محاوروں کو تلاش کر کے ان کا مفہوم لکھیے



     💎اضافی سرگرمیاں💎




















  👈ایک جملے میں جواب دیجییے👉

1)تھانیسر کے علاقے سے آنے والی اطلاع کے متعلق لکھییے
جواب :۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
2)  بارہ برس میں سپاہی کی بڑھنے والی درماہہ کی رقم کے بارے میں معلومات فراہم کیجئے۔
جواب :۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
3) سپاہی کی بیٹی کی عمر کے متعلق بیان کیجیے
جواب :۔۔۔۔۔۔۔
4) ہر گھر میں موجود صندوق میں پس انداز کی جانے والی چیز کے بارے میں لکھیے۔
جواب :۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
5) گون یا گونا  کے متعلق معلومات فراہم کیجئے
جواب :۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
6) بڑھیا کے ذریعے دعائیہ  لہجے میں بلند آواز میں کہے جانے والے الفاظ بیان کیجیے
جواب :۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
7) بیٹی کے مصارف شادی کے لیےسپاہی نے جتنے تنکوں کا انتظام کیا تھا اس کے بارے میں لکھیے
جواب :۔۔۔۔۔۔۔۔۔
8) سپاہی نے جس سوچ کے ساتھ بڑھیا کی مدد کی اس کی وجہ لکھیے/ تباہ حال بڑھیا کی مدد کے لیے سپاہی کے خیال کی وجہ قلمبند کیجئے
جواب :۔۔۔۔۔۔۔۔۔
9) مصنف کے سر پر ڈالے گئے کپڑے کے بارے میں لکھیے
جواب :۔۔۔۔۔ 
10)موٹے اور پسینے کی بدبو سے بھرے ہوئے کپڑے کا سپاہی پر ہونے والا اثر بیان کیجیے
جواب:۔۔۔۔۔۔۔
11) بٹ ماروں کا منشا بیان کیجیے
جواب :۔۔۔۔۔۔۔
12) سپاہی چیخ نہ سکا وجہ بیان کیجیے
جواب :۔۔۔۔۔۔۔۔
13) سپاہی نے ہاتھ پاؤں ہلانے کی سعی اور تیز کردی وجہ بیان کیجیے
جواب :۔۔۔۔۔۔۔۔
14) سپاہی دوہرا خوش نصیب تھا وجہ بیان کیجیے
جواب :
15)عورتوں کے پردے کے متعلق بیان کیجیے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ِ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ِ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ِ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

   👈 متبادلات پر مشتمل سرگرمیاں /خالی جگہ 👉


1) سلطان والی شان نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سے مشاورت کی
2)  ہندوں تالاب قدیم پر پوجاپاٹھ بھی کرتے تھے اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بھی بجاتے تھے
3) انتظام سلطنت میں ہشیاری اور خبرداری کی غرض سے  حضرت دہلی اور اس کے گرد و نواح میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مسلح فوج ہر وقت تیار رہتی تھی
4)سپاہی جس فوج میں تھا اس علاقے کا نام۔۔۔۔۔۔۔۔
5) سپاہی کی فوج ۔۔۔۔۔۔۔ندی کے کنارے قیام کرتی تھی۔
6) برساتوں میں ندی پر ۔۔۔۔۔۔کا گمان ہونے لگتا
7)اسی بنا پر اس علاقے کو خلق اللہ طنزا''۔۔۔۔۔۔ِ۔ِ۔۔ کہنے لگی تھی۔
8)اس زمانے میں پانچ تنکا ماہانہ پانے والے۔۔۔۔۔۔۔۔سے رہتے تھے
9)بارہ برس میں سپاہی کا درماہہ اتنا ہوگیا۔۔۔۔۔۔۔
10)سلطان بہلول لودھی کا جاری کیا ہوا تانبے کا سکہ ۔۔۔۔۔کہلاتا تھا
11)بہلولی سکہ جس دھات کا بنا ہواتھا۔۔۔۔۔۔۔۔
12) گون یا گونا کا مطلب ۔۔۔۔۔۔۔۔
13)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کا یہ اکیسواں سنئہ جلوس تھا
14) گوار مسلمانوں میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کی بو باس ابھی بہت کچھ باقی تھی
15) جمعہ کے سوا ہر دن پہنے جانے والا ہندوانہ لباس۔۔۔۔۔۔۔تھا
16)سپاہی کو گھر بلایا گیا تھا بیٹی کی شادی کے۔۔۔۔۔۔۔۔
17)سپاہی نے جس مہینے گھر جانے کا ارادہ کیا۔۔۔۔۔۔۔۔
18)مصارف شادی کے لئے انتظام کی گئی رقم ۔۔۔۔۔۔۔۔
19) سامنے ایک پلیا تھی جس کے نیچے نالہ ابھی۔۔۔۔۔۔تھا
20) میں نے کمر سے خنجر نکالنا چاہا کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
21) تنہا آدمی کا خدا ہی مددگار ہوگا ہم معنی قول۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
22) گھوڑا پچھلی ٹانگوں پر کھڑا ہوگیا کا ہم معنی فقرہ۔۔۔۔۔۔۔۔
23) یہ نہیں جانتے کہ کس کو چھیڑا ہے کا ہم معنی جملہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
24) تھوڑی دیر میں گھوڑا قابو میں آ گیا کا مطلب۔۔۔۔۔۔۔۔
25) یہ جگہ تو حضرت دہلی سے۔۔۔۔۔۔۔دور ہے
26) کپڑا اتنا موٹا اور پسینے سے بھرا ہوا تھا کہ مجھے ۔۔۔ِ۔۔۔۔۔آگئی
27)سراؤں کا خرچ۔۔۔۔۔۔سے ادا کیا جاتا تھ
28) شیر کو اس علاقے میں تھے نہیں،ہاں مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔بہت تھے
29) میں نے ہاتھ پاؤں ہلانے کی سعی اور تیز کر دی کہ مہاوت سمجھ لے کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
30) معتبر سنگھ نے۔۔۔۔۔۔۔۔  سرگوشی میں کچھ کہا اور کئی بار کہا۔
31)  رئیس زادہ۔۔۔۔۔ جا رہا تھا




نوٹ : اپنے طلبہ کو لغت اور ڈکشنری کے استعمال کی عادت ڈالیں ۔ لغت اور ڈکشنری کا استعمال تفہیم کے عمل کو آسان بنا دیتا ہے ۔نیز زبان دانی میں کلیدی رول ادا کرتا ہے

لغت کو اس لنک کی کاپی کو پلے اسٹور میں پیسٹ کرکے  ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں:

http://play.google.com/store/details?id=com.vovoapps.lughatoffline

Thursday, 9 April 2020

1) طلسم ہوش ربا

            1) طلسم ہوش ربا











نئے الفاظ کے معنی 
1) راوی =کسی واقعہ، بات یا خبر کا بیان کرنے والا
2)ظفر پیکر،=خوش نصیب
3)سپاہ=سپاہی، فوج، لشکر
4)ہمراہی =ساتھی، ساتھ چلنے والا، رفیق
5)عالی جاہ =بلند مرتبہ والا، امراء اور  حکام کو خطاب کرتے وقت بولے جانے والا لفظ
6)سکونت =رہنے کی جگہ، قیام گاہ
7)اعانت =مدد، سہارا
8)کروفر=شان و شوکت،ٹھاٹھ باٹھ
9)پیادے =سرکاری ہرکارہ، چپراسی، کوتوال یا حاکم کا نوکر
10)کوچ کرنا=رخصت ہونا
11)دلاور =بہادر
12)مسلح ہونا=ہتھیار لگائے ہونا، ہتھیار باندھ کر لڑنے کے لیے تیار ہونا
13)مع=کے ساتھ
14)سرداران گرامی =ہردلعزیز سردار
15)قصہ کوتاہ=قصہ مختصر، حاصل کلام یہ ہے کہ......
16)مثل طاہر پرید=مثل=کی مانند، کی طرح /طاہر =پرندہ
17)ربط وضبط=میل ملاپ، دوستی
18)در قلعہ =قلعہ کا دروازہ
19)آہن=لوہا، فولاد
20)عدو=دشمن
21)مسکن =رہنے کی جگہ، ٹھکانہ، گھر
22)ثوابت=ثابت، ایک جگہ قائم رہنے والے ستارے //سیارگاہ=سیاروں کی جگہ
23)آفتاب عالم تاب =مراد شہزادہ بدیع الزمان
24)بہر شکار =شکار کے لئے
25)عازم میدان ہونا =میدان کی طرف جانے کا ارادہ
26)طرارے بھرنا=سرپٹ بھاگنا
27)کنوتیاں بدلنا=چوکنا ہونا، کان کھڑے کرنا
28)ترکش=تیروں کے رکھنے کا آلہ
29)مہیب=بھیانک، ہیبت زدہ
30)قید گراں=تکلیف دہ قید
31)تیرہ وتار=اندھیرا
32)فرط الم👈فرط=کثرت /الم=غم
33)جان گرا=جان کو تڑپا دینے والا
34)بے تامل=فوراً
35)شیون=ماتم، آ ہ وزاری
36)گریہ و بقا =رونا، چیخنا، ڈھاڑے مار کر رونا
37)پچھا ڑیں کھانا=حالت ماتم میں پٹخنیاں کھانا
38)نوحہ و زاری =رونا پیٹنا، آہ و زاری کرنا
39)ااسرار=راز داری کی باتیں، پوشیدہ باتیں
40)زائچہ =جنم کنڈلی
41)بسیار =بہت
42)ذی وقار =با عزت،
43)ماش=ایک قسم کا مونگ سے بڑا اناج
44)اسم اعظم =اسم اعظم سے مراد اللہ تعالی کےوہ  اسمائے حسنی ہے جن کو خاص اہمیت و امتیازحاصل ہے.جن کے ذریعے دعا کی جائے تو قبولیت کی زیادہ امید کی جاسکتی ہے.اور جنہیں مخفی رکھا گیا ہے.عموما بہت سے عاملین اس کے علم کا دعوہ کرتے ہیں.اور جنات سے علاج سفلی علم سے بچاؤ وغیرہ میں استعمال کیا جاتے ہیں.اسم اعظم پر علماء میں بھی اختلاف ہے. کچھ کے مطابق اللہ اسم اعظم ہے. بعض کے مطابق صمد  یا الحہ یا القیوم یا الرحمٰن یا الرحیم  یا مہین یا محض ہو اسم اعظم ہے. کہتے ہیں کہ اسم اعظم کے واسطے سے جو بھی دعا کی جائے وہ قبول ہوتی ہے
45)خواجہ زادہ=خواجہ کا بیٹا
46)خلعت فاخرہ 👈خلعت =انعام، فاخرہ =جس پر فخر کیا جائے
47)موقوف =رکھ جانا، وقفہ لینا

48)سیر=اسی(80)تولے یا سولہ(16)چھٹانک وزن کا پیمانہ
49)بازاریں لشکر کی=لشکر کی قطاریں یا صفیں
❌❌❌❌❌❌❌❌❌❌❌❌❌❌❌❌❌❌❌❌❌❌❌❌❌❌❌❌


(*) سبق سے موزوں لفظ تلاش کرکے شبکی خاکہ مکمّل کیجئے






آؤ زبان سیکھیں:



(5)👈




(*) صحیح متبادل تلاش کرکے 



(*)ہدایت کے مطابق درج ذیل سرگرمیاں مکمّل کیجئے

1) ہزار شکل قلعے سے فرار ہونے والوں کے تعاقب میں روانہ کئے گئے ہرکاروں کو دی گئ ہدایات لکھئے

 جواب:ہزار شکل قلعے سے فرار ہونے والوں کے تعاقب میں روانہ کئے گئے ہرکاروں کو ہدایات دی گئیں کہ جس جگہ بھی یہ مفرور  گزیں ہو اور جو انہیں پناہ دے، اس بادشاہ کی حقیقت سے اور اس ملک وسپاہ کی کیفیت سے بادشاہ کو مطلع کیا جائے 

2امیر کیشور گیر کی خدمت میں پہنچنے والے ہرکاروں کی حالت بیان کیجئے

جواب:ہزار شکل قلعے سے فرار ہونے والوں کے تعاقب میں روانہ کئے گئے ہرکاروں کو ہدایات دی گئیں کہ جس جگہ بھی یہ مفرور  گزیں ہو اور جو انہیں پناہ دے، اس بادشاہ کی حقیقت سے اور اس ملک وسپاہ کی کیفیت سے بادشاہ کو مطلع کریں. ہرکاروں نے پوری معلومات حاصل کرنے کے بعد سلطان عالی شان سعد بن قباد کی خدمت میں حاضر ہوئے. وہ اس قدر عجلت میں آئے تھے کہ ان کے ہونٹوں پر پپڑیاں آگئی تھیں اور کنپٹیاں لپک گئی تھیں. کوہ عقیق میں ہرکاروں نے جو دیکھا ان کا احوال جوں کاتوں بادشاہ کو بیان کردیا

3) سپہ سالار صاحب قراں کی فراہم کردہ معلومات پر بادشاہ کا ردعمل بیان کیجیے

جواب: جب لقا ہزار شکل قلعے سے فرار ہوا تو حمزہ صاحب قراں نے فرار ہونے والوں کے تعاقب میں اپنے لشکر ظفر پیکر سے چار ہرکاروں کو روانہ کیا کہ وہ مفرور کی اور اسے پناہ دینے والے ملک اور اس کے بادشاہ کی کیفیت سے شہنشاہ کو مطلع کریں. ہرکاروں نے معلومات حاصل کرنے کے بعد سلطان عالی شان سعد بن قباد کی خدمت میں پہنچے اور سارا احوال گوش گزار کیا. ہرکاروں نے بادشاہ کو بتایا کہ لقا کوہ عقیق پہنچ گیا ہے اور وہاں سکونت اختیار کی ہے. یہ سن کر بادشاہ نے اپنے سپہ سالار حمزہ صاحب قراں کو پہلوان دوران عادی کو بلانے کا حکم دیا. اسے کے ساتھ کوہ عقیق کے طرف پیش خیمہ روانہ کرنے کا بھی حکم دیا. بادشاہ خود اپنے عزیز سرداروں کے ساتھ کوہ عقیق کی طرف چل نکلا

4)کوہ عقیق کے بادشاہ کی جنگی تیاریاں کو قلم بند کیجئے

جواب :لشکر کوہ عقیق کی طرف روانہ ہوا. داخلہ لشکر سے مخالفوں کے ہوش اڑ گئے. جب کوہ عقیق کے بادشاہ سلیمان نے فوج کے امد کی خبر سنی تو اپنی فوج کو ملک کے ربط و ضبط کا حکم دیا اور قلعے کا دروازہ بند کر نے کہا. کانسے اور لوہے کی ڈھلی ہوئی توپیں لگا ئی گئیں.قلعے کے ٹوٹے ہوئے حصے جیسے برج، بارے کنگرے اور فیصلوں کو درست کیا گیا.

5)شہزادہ بدیع الزمان کی خواہش، اجازت ملنے کی مراحل اور بادشاہ کی تنبیہ ترتیب وار تحریر کیجئے
جواب :جب حمزہ صاحب قراں نے کوہ عقیق کے لیے کوچ کیا تو ان کے ساتھ ان بیٹا شہزادہ بدیع زماں بھی تھا. لشکر کوہ عقیق کے بادشاہ سلیمان کے قلعے کے سامنے فروکش ہوا. بدیع الزمان کے دل میں خوش گوار ہوا اور سبزہ دار صحرا دیکھ کر شکار کی خواہش پیدا ہوئی. لہٰذا اس نے اپنے والد امیر حمزہ صاحب قراں سے اجازت چاہی مگر امیر خاموش رہے اور اجازت نہیں دی. بدیع الزماں اپنی والدہ کے پاس گئے اور والدہ سے درخواست کی کہ وہ والد سے شکار کی اجازت دوادے. والد حمزہ صاحب قراں نے اجازت نہ دینے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ یہ صحرا جادو سے بھرا ہوا ہے. انہیں ڈر ہے کہ شہزادہ کسی آفت میں مبتلا نہ ہو جائے لیکن والدہ کے کہنے پر شہزادہ بدیع الزماں کو شکار کی اجازت صرف ایک دن کے لیے ہی ملتی ہے. صاحب قراں شہزادے کو تنبیہ کرتا ہے کہ وہ ایک روز کے بعد لوٹ آئے اور زیادہ عرصہ نہ لگا ئے

6):شہزادہ بدیع الزماں کے شکار پر نکلنے کے وقت کی منظر کشی کیجئے

جواب :شہزادہ بدیع الزماں کو صرف ایک روز کے لئے شکار پر جانے کی اجازت ملتی ہے. جس وقت شہزادہ شکار کے لئے نکل رہا تھا اس وقت مشرق کی جانب سے صیاد فلک (آسمان کا شکاری یعنی سورج) آسمان پر موجود ستاروں کا شکار کر رہا تھا. مطلب صبح ہو رہی تھی. اس وقت آسمان سبزہ زار نظر آرہا تھا اور ستارے دھیرے دھیرے اوجھل ہو رہے تھے

💙7):عمرونامدار عیار کےشہزادے کو تلاش کرنے اور ر اسکی لاش لیکر صاحب قراں تک پہنچنے کا منظر تحریر کیجئے

جواب :شہزادہ بدیع ا لزماں اپنے والد سے شکار کی اجازت لے کر میدان میں جاتا ہے۔ سامنے کچھار سے ایک ہرن نمودار ہوتا ہے۔ شہزادہ ہرن کو ہلاک کر دیتا ہے۔ چونکہ یہ سرزمین سرحد طلسم ہوشربا ہے۔ اچانک صحرا گردوغبار سے تاریک ہوجاتا ہے۔ اور آندھیوں کا طوفان برپا ہو جاتا ہے۔ اور شہزادہ پر بے ہوشی طاری ہو جاتی ہے۔ جب ہوش آتا ہے تو وہ اپنے آپ کو قید گراں میں پاتا ہے۔ امیہ بن عمرو نامدار عیار شہزادے کو تلاش کرنے کے لئے آتا ہے۔ جنگل میں اسے بدیع الزماں کی لاش زمین پر پڑی نظر آئی۔ چہرہ خون سے بھرا ہوا تھا۔ شہزادے کی لاش دیکھ کر عمرو نامدار عیار رونے لگتا ہے اور اپنا گریبان چاک کر نے لگتا ہے۔ لاش کو گھوڑے پر ڈال کر صاحب قراں کی طرف چل پڑا۔ راستے میں شہزادے کے ہمراہی اور رفیق بھی ملے۔ جب ان کو یہ ماجرا غم انگیز نظر آیا تو غم کی کثرت سے انکا کلیجہ منہ کو آنے لگا۔ تمام لوگ روتے، پیٹتے، خاک اڑاتے ہوئے لاش کو لیکر امیر حمزہ صاحب قراں کی خدمت میں حاضر ہوئے۔

💙8) خواجہ بزر چمہر کے زائچہ کھینچنے کو قلم بند کیجئے۔

جواب: عمرو نامدار عیار نے جب یہ کہا کہ شہزادے کو کسی انسان نے شہید نہیں کیا بلکہ کسی کو کچھ بھی معلوم نہیں ہوا کہ کیا ہوا۔ یکایک صحرا تاریک ہو گیا تھا اور پھر یہ لاش ملی۔ امیر صاحب قراں کے مطابق شہزادے کے اسطرح قتل ہوجانے میں کوئی راز ہے جس کا پتہ صرف اللہ تعالیٰ جانتا ہے۔ لہٰذا امیر نے نجومی خواجہ بزر چمہر کو بلانے کا حکم دیا۔ خواجہ بزر چمہر نے زائچہ کھینچا اور غور و خوص کرنے کے بعد یہ نتیجہ نکالا کہ شہزادہ صحیح و سالم ہے مگر جادوگروں کی شدید قید میں گرفتار ہے۔ اور سامنے جو لاش نظر آرہی ہے وہ شہزادے کی نہیں ہے بلکہ ماش کے آٹے سے بنی ہوئی ہے اور شہزادے کی لاش کی طرح نظر آرہی ہے۔ اسم اعظم پانی پر دم کرنے اور وہ پانی لاش پر چھڑکنے سے لاش کے ماش کے آٹے سے بنے ہونے کا راز عیاں ہو جائیگا

9) زنبیل، جال الیاسی، گلیم عیاری، کمند آصفی، دیو جامہ کے بارے میں معلومات دیجئے۔

جواب: ١) زنبیل: زنبیل ایک ایسی تھیلی ہےکہ اس میں اس دنیا کے علاوہ ایک اور دنیا بھی آباد ہے۔ جو بھی چیز مانگوں یا چاہو اس تھیلی سے نکلے گی۔ اور جو بھی چیز اسمیں رکھنا چاہو رکھی جاسکتی ہے۔
٢) جال الیاسی : جال الیاسی کی خوبی یہ ہے کہ اگر کروڑوں من کے وزن کی کوئی چیز پر یہ جال پھینکا جائے تو وہ وزنی چیز سواسیر کی (ہلکی) ہو کر اسمیں آجاۓ گی۔
٣) گلیم عیاری: گلیم عیاری کو اوڑھ لیا جائے تو تم سب کو دیکھ سکوں گے لیکن تم کو کوئی نہیں دیکھ پاۓ گا۔
٤) کمند آصفی: کمند آصفی کو پھینک کر، جتنا کہو گے گھٹ جاۓ گی اور جتنا کہو گے بڑھ جاۓگی۔ اور کسی بھی چیز سے کٹےگی نہ ٹوٹے گی۔
٥) دیو جامہ: دیو جامہ ایک ایسا لباس ہے جس کے پہننے سے یہ رنگ بدلتا ہے، کبھی سبز ہوجاتا ہے تو کبھی سرخ تو کبھی زرد۔
جواب :میں شہزادے کے قاتل کی تلاش میں جاؤں اور اسے قتل کر کے اس کا سر لاؤں


 اسباب بیان کیجیے

 1)ہرن کے تعاقب میں شہزادے کا اکیلا رہ جانا :
جواب : شہزادہ بدیع الزماں اپنے والد حمزہ صاحب قراں سے شکار کے لئے ایک روز کی اجازت حاصل کرتا ہے۔ اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ صحرا میں شکار کے لئے جاتا ہے۔ دوران شکار ایک ہرن کچھار سے اٹھکیلیاں کرتا ہوا اور طرارے بھرتا ہوا نمودار ہوتا ہے۔ بدیع الزماں ہرن کی رعنائی اور زیبائی دیکھ کر اس پر فریفتہ ہو جاتا ہے۔ سرداروں کو حکم دیتا ہے کہ ہرن کو زندہ گرفتار کرو اور اسے ہاتھ سے جانے نہ دیا جائے۔ لہٰذا تمام ساتھی حلقہ باندھ کر اسے گھیرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ ہرن شہزادے کے سر کے اوپر سے کنوتیاں بدل کر نکل جاتا ہے۔ بدیع الزماں ہرن کے پیچھے اکیلے ہی گھوڑا دوڑا دیتا ہے اور اس کے تعاقب میں کئی کوس نکل جاتا ہے۔ شہزادے کے ساتھی پیچھے چھوٹ جاتے ہیں۔ اسطرح شہزادہ اکیلا رہ جاتا ہے۔

2 ) بادشاہ کو شہزادے بدیع الزماں کے زندہ ہونے کی امید:


جب عمرو نامدار عیار شہزادے کی لاش لاتا ہے تو سارے لشکر اور محلات عظمیٰ میں شور گریا و بگا بلند ہوجاتا ہے۔ سب شدید غم و الم میں ڈوب جاتے ہیں۔ امیر حمزہ صاحب قراں شہزادے کے قتل کا بدلہ لینے کے لئے تیار ہو جاتا ہے۔ لیکن عمرو کے مطابق یہ قتل کسی انسان نے نہیں کیا۔ یہ ایک پر اسرار قتل ہے۔ لہٰذا امیر نجومی خواجہ بزر چمہر کو بلاتا ہے تاکہ اس سے راز جانا جاۓخواجہ بزر چمہر نے زائچہ کھینچا اور غور و خوص کرنے کے بعد یہ نتیجہ نکالا کہ شہزادہ صحیح و سالم ہے مگر جادوگروں کی شدید قید میں گرفتار ہے۔ اور سامنے جو لاش نظر آرہی ہے وہ شہزادے کی نہیں ہے بلکہ ماش کے آٹے سے بنی ہوئی ہے اور شہزادے کی لاش کی طرح نظر آرہی ہے۔ اسم اعظم پانی پر دم کرنے اور وہ پانی لاش پر چھڑکنے سے لاش کے ماش کے آٹے سے بنے ہونے کا راز عیاں ہو جائیگا۔لہذا امیر نے اسم اعظم پانی پر دم کرکے لاش پر چھڑکا. لاش ماش کے آٹے کی نظر آئی. امیر نے سجدہ شکر ادا کیا. امیر کو خواجہ بزر چمہر کے قول پر یقین آیا اور شہزادے بدیع الزماں کے زندہ کے زندہ ہونے کی امید نظر آئی.

 (*) درج ذیل جملوں کی وضاحت کیجئے

1)شہزادے کی خبر گیری کے لیے عمرو نے عیاری سے اپنے آپ کو جن چیزوں سے آراستہ کیا :

جواب :شہزادہ بدیع الزماں پر اسرار طریقے سے قتل کر دیا جاتا ہے. اس راز کو جاننے کے لیے نجومی خواجہ بزر چمہر کو بلایا جاتا ہے. خواجہ بزر چمہر زائچہ دیکھ کر شہزادے کے صحیح وسالم ہونے کی خبر سناتا ہے. لہٰذا امیر صاحب قراں عمرو نامدار عیار کو بلاتا ہے اور اسے شہزادے کی خبر گیری کے واسطے روانہ کرتا ہے. عمرو عیار زنبیل، جال الیاسی، گلیم عیاری، کمند آصفی اور دیو جامہ سے اپنے آپ کو آراستہ کرتا ہے. زنبیل ایک ایسی تھیلی ہےکہ اس میں اس دنیا کے علاوہ ایک اور دنیا بھی آباد ہے۔ جو بھی چیز مانگوں یا چاہو اس تھیلی سے نکلے گی۔ اور جو بھی چیز اسمیں رکھنا چاہو رکھی جاسکتی ہے. جال الیاسی کی خوبی یہ ہے کہ اگر کروڑوں من کے وزن کی کوئی چیز پر یہ جال پھینکا جائے تو وہ وزنی چیز سواسیر کی (ہلکی) ہو کر اسمیں آجاۓ گی. گلیم عیاری کو اوڑھ لیا جائے تو تم سب کو دیکھ سکوں گے لیکن تم کو کوئی نہیں دیکھ پاۓ گا۔کمند آصفی کو پھینک کر، جتنا کہو گے گھٹ جاۓ گی اور جتنا کہو گے بڑھ جاۓگی۔ اور کسی بھی چیز سے کٹےگی نہ ٹوٹے گی۔دیو جامہ ایک ایسا لباس ہے جس کے پہننے سے یہ رنگ بدلتا ہے، کبھی سبز ہوجاتا ہے تو کبھی سرخ تو کبھی زرد

2)قصہ کوتاہ، بعد کوچ و مقام وشام پگاہ لشکر نے قریب کوہ عقیق ورود فرمایا

جواب:جب لقا ہزار شکل قلعے سے فرار ہوا تو حمزہ صاحب قراں نے فرار ہونے والوں کے تعاقب میں اپنے لشکر ظفر پیکر سے چار ہرکاروں کو روانہ کیا کہ وہ مفرور کی اور اسے پناہ دینے والے ملک اور اس کے بادشاہ کی کیفیت سے شہنشاہ کو مطلع کریں. ہرکاروں نے معلومات حاصل کرنے کے بعد سلطان عالی شان سعد بن قباد کی خدمت میں پہنچے اور سارا احوال گوش گزار کیا. ہرکاروں نے بادشاہ کو بتایا کہ لقا کوہ عقیق پہنچ گیا ہے اور وہاں سکونت اختیار کی ہے. یہ سن کر بادشاہ نے اپنے سپہ سالار حمزہ صاحب قراں کو پہلوان دوران عادی کو بلانے کا حکم دیا. اسے کے ساتھ کوہ عقیق کے طرف پیش خیمہ روانہ کرنے کا بھی حکم دیا. بادشاہ خود اپنے عزیز سرداروں کے ساتھ کوہ عقیق کی طرف چل نکلا.

        قصہ مختصر یہ کہ یہ لشکر مسلسل نہ چلا.جب تھک جاتے تو مقام کر لیتے تھے.. آرام کر نے کے بعد کوہ عمیق کی طرف کوچ کرتے تھے. شام کو مقام کرتے اور صبح کو روانہ ہوتے. اسطرح لشکر کوہ عقیق کے قریب پہنچا

3) جس وقت صیاد فلک مشرق سے سبزہ زار فلک پر صید افگن توابت و سیارگاں ہوا، یہ آفتاب عالم تاب بہر شکار عازم میدان ہوا.

جواب :شہزادہ بدیع الزماں اپنے والد حمزہ صاحب قراں سے شکار کے لئے ایک روز کی اجازت حاصل کرتا ہے. اشہزادے علی الصبح شکار کےلئے نکلتا ہے. جس وقت وہ شکار کو نکلتا ہے اس وقت سورج طلوع ہو رہا ہے. صبح کے ظہور کو بیان ایک استعارے کے استعمال سے کیا گیا ہے. سورج کو صیاد فلک کہا گیا ہے. یہ قدرت کا نظام ہے کہ جب سورج طلوع ہوتا ہے تو فلک پر موجود تمام متحرک اور غیر متحرک ستارے و سیارے آنکھوں سے اوجھل ہو جاتے ہیں. گویا کہ سورج نے ہی ان اجسام کا شکار کر لیا ہو. مصنف ایک اور استعارے کا استعمال کر تے ہوئے شہزادے کو آفتاب عالم تاب کہتا ہے. جس وقت آفتاب ستاروں کا شکار کرنے نکلتا ہے ٹھیک اسی وقت شہزادہ بدیع الزماں بھی شکار کے لئے میدان کے لیے نکلتا ہے. یہ سطریں تصوراتی حسن کا عمدہ نمونہ ہے. منظر نگاری کی اعلی مثال ہے. سبزہ زار فلک، ثوابت و سیارگاہ جیسے الفاظ بڑے موزوں طور پر استعمال کئے گئے ہیں. ان الفاظ کے ذریعے صبح کے منظر کو نہایت خوبی سے پیش کیا گیا ہے


4)جب ہرن پر دسترس نہ پہنچا اور وہ زندہ گرفتار نہ ہوا، فوراً ترکش سے تیر مار دہ مشت بحر کمان میں پیوستہ کرکے لگایا، تیر اس کے دوسار ہوا

جواب:جواب : شہزادہ بدیع الزماں اپنے والد حمزہ صاحب قراں سے شکار کے لئے ایک روز کی اجازت حاصل کرتا ہے۔ اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ صحرا میں شکار کے لئے جاتا ہے۔ دوران شکار ایک ہرن کچھار سے اٹھکیلیاں کرتا ہوا اور طرارے بھرتا ہوا نمودار ہوتا ہے۔ بدیع الزماں ہرن کی رعنائی اور زیبائی دیکھ کر اس پر فریفتہ ہو جاتا ہے۔ سرداروں کو حکم دیتا ہے کہ ہرن کو زندہ گرفتار کرو اور اسے ہاتھ سے جانے نہ دیا جائے۔ لہٰذا تمام ساتھی حلقہ باندھ کر اسے گھیرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ ہرن شہزادے کے سر کے اوپر سے کنوتیاں بدل کر نکل جاتا ہے. جب ہرن کو قابو میں کرنا بس میں نہ رہا اور اسے پکڑنا نا ممکن سا لگنے لگا تو شہزادے نے فوراً دس مشت سانپ کی لمبائی کا ایک بڑا سا تیر ترکش سے نکالا اور شکار کرنے کے لیے کمان میں پیوست کیا.. شہزادے نے تیر چلا دیا.تیر ہرن کے جسم کے آر پار ہوگیا اور وہ ہرن زمین پر گر پڑا.


(*) ذیل سے دئے ہوئے موضوعات پر ذاتی رائے تحریر کیجئے
1)شہزادہ بدیع الزماں کی سرگرمیاں 
2)امیہ بن عمرو نامدار عیار کی امیر سے کی گئی عرض
3) سحر، ساحر، زائچہ، پیشین گوئی، اسم اعظم 

( ذاتی رائے کے جواب طلبہ ازخود تیار کریں) 

(*) ہدایات کے مطابق درج ذیل قواعدی سرگرمیاں مکمّل کیجیے  ( activities solved by SK.Iiyas Sir, Resod) 


                            جواب:ہمراہی اور رفیق 
 (*) محاوروں کا جملے میں استعمال کیجئے 
👈ہوش اڑنا
👈کلیجامنہ کو آنا
👈خاک اڑانا 
    (طلبہ اس سرگرمی کس جواب از خود تیار کریں) 
.......... اضافی سرگرمیاں برائے مشکل..............

اردو زبان کو پارلیمانی زبان کا درجہ دیا جانا

 ا ردو زبان کو پارلیمانی زبان کا درجہ دیا جانا              بھارت نے اردو کو پارلیمانی زبان کا درجہ اس کی تاریخی، ثقافتی، اور سماجی اہمیت کی...