دنیا اپنے خاتمہ کے آخری مرحلہ پر ہے
اللہ نے فرشتے اور جن جیسی مخلوقات کے باوجود انسان کو بنایا آدم کی شکل دی۔ فرشتوں نے کہا کہ تو آدم کیوں بناتا ہے جبکہ تیری حمد و ثنا کے لئے ہم تو ہیں لیکن اللہ تو خالقِ مطلق ہے۔ فرشتے تو خاموش ہوگئے لیکن ابلیس جو جن تھا اس نے حکم عدولی کی اور ملعون ہوا۔ ابلیس دراصل اپنی انا کی وجہ سے مایوس ہوا،اسلئے اس نے ایک بار بھی توبہ کرنے کا نہیں سوچا۔ انسان کو اللہ نے توبہ جیسی بڑی نعمت دی ہے۔ توبہ جسے ہم استغفار کہتے ہیں بہت اہم چیز ہے۔
انسان کو آدم کی شکل میں زمین پر بھیج کر اللہ نے امتحان رکّھا ہے۔ اس نے پہلے احکامات اور ڈرانے والے بھیجے۔ کمزوروں کیلئے توفیق جیسی سہولت بھی عنایت کی۔ ویسے اسکے احکامات آدمؑ سے محمدؐ تک ایک ہی تھے لیکن قرآن جو آخری احکام ہیں اس میں انسانوں سے ہر معصیت کے خلاف جدوجہد کرنے کا حکم دیا۔ ایک چیز جسکے خلاف اللہ نے ذاتی طور پر اعلان کیا وہ سود ہے۔ سود گناہِ کبیرہ ہے، اتنا بڑا کہ اسکے بارہ میں بہت وعیدیں آئی ہیں۔ تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔ اسلئے کہ آجکل تاویل نکالنے میں لوگ بہت وقت صرف کرتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ نے آدم کو سجدہ کرنے کا حکم دیا اور انکار پر پھٹکار لگائی، حکمِ سود پر بھی عمل پیرا ہونا ہوگا، بلا تاویل کے کہ انکار پر پھٹکار ہے۔پھٹکار کیوں پڑرہی ہے؟ پٹھکار کے باوجود اللہ جو رحیٖم ہے بندوں کو موقع دیتا ہے کہ توبہ کرو لیکن کرتے ہی نہیں۔ دنیا کی چیزوں کا پیچھا کرنے والوں کا اللہ روزِ آخرت میں کوئی وزن نہیں رکّھے گا، یہی تو سورۂِ کہف کی آخری آیات میں لکھا ہے!
سود سے اجتناب بہت آسان ہے اگر انسان تجزیہ کرے۔ ہمارے پاس دنیا کی تعلیم ہو تب بھی کوئی یقین دہانی ہے کہ عزّت کی جائیگی۔ کیا فسادات میں ڈاکٹر یا انجینئر مارے نہیں گئے؟ مارنے والوں کے پاس کیا بہتر سندیں تھیں۔ کیا بڑا گھر ہو تو مکین کی جان کی امان دی جاتی ہے؟ کیا چھوٹا یا کچّا گھر ہو تو انکی جان سب سے پہلے لی جاتی ہے۔ تنخواہ کو خرچ کرنے کی بجائے مزید کمانے کا سامان کرنے کی جستجو ہو تو پھر کیا ہو؟ مزدوری کرتے وقت دیانتداری سے کام کیا تو کیا برکت نہیں رہتی؟
ایک بار مسجد میں حلقہ کے بعد کسی نے کہا کہ محلّہ کا ہر دوسرا گھر مزید توسیع کیا جارہا ہے اور اسکے لئے سود پر قرض لیا جاتا ہے۔ کچھ روز پہلے مکان والا پریشان تھا کہ اسکی ملازمت ذات کی بنیاد پر ملی تھی اور ذات حق ہے یا باطل اسکے نوکری پر سوال تھا۔ وہ نوکری جانے اور تنخواہ پر لئے گئے قرض کے لئے فکر مند تھا۔ پھر جیسے تیسے اس نے اپنی ذات کو حق بجانب کیا تو سب بھول گیا۔ بیوی کے ساتھ اسطرح دو افراد نے حج بھی کرلیا۔ پہلا قرض جاری ہے۔ پھر گھر کی مزید توسیع کیلئے قرض لیا۔ پیشہ استاد کا ہے لیکن خود کی زبان ایسی کہ کوئی ہندو بنیا بھی شرما جائے کہ بھائی پنڈت سے زیادہ جعلی سرکاری زبان بولتے ہیں۔ہماری اس جھوٹی ذات کی ملازمت، سود پر سود کے قرض اور حج!ہمارے انہی اقدام پر قرآن میں وعیدیں آتی ہیں لیکن ہم قرآن پر قرآن تلاوت کئے جاتے ہیں لیکن فائدہ نہیں۔ ہمیں لگتا ہے کہ کسی جادوگر یا پنڈت کے منتر پڑھ لینے کی طرح جلد جلد قرآن پر انگلی پھیر کر پڑھ لینے سے ثواب مل جائیگا، ویسے ہی جیسے ہم غیر زبان میں، خلط ملط الفاظ کی کوئی حدیث اور اسکا ترجمہ پڑھتے نہیں، سمجھتے نہیں لیکن بھیج دیتے میرا مطلب ہے سنیڈ کردیتے ہیں۔ یہ تو ایسے ہوا کہ پیسہ کے عوض ثواب خریدنا!
مسجد میں ایک نوجوان کہنے لگا کہ پھر اگر قرض سے ٹرک نہ خریدا تو ترقی کیسے ہوگی؟ قرض لیکر ایم بی اے نہیں کیا تو ترقی کیسے ممکن ہو؟ اگر دادا کا وہ کھیت جو مسجد کے متولّی ہونے کی وجہ سے انکی ذمّہ داری تھا، اسے بیچ کر ایم ڈی، ایم بی بی ایس نہیں کیا تو ترقی کیسے ہوگی؟ اگر استاد صاحب قرض لیکر گھر نہیں بڑھاتے تو بٗڑھاپہ میں کیا کھائینگے؟
جواب یہ ہے کہ اگر تعلیم حاصل کرنے کے وقت ادھر ادھر کرنے، ابا کی جیسی تیسی چلتی دوکان پر وقت گزاردینے کے، کسی جگہ رشوت بنام ڈونیشن دے کر نوکری حاصل کرلینے کا سوچنے کی بجائے وہ تعلیم حاصل کرتے جس کی ہمارے استعداد ہے، جسمیں ہمیں دلچسپی ہو تو پھر اس معیاری تعلیم کی وجہ سے ہمیں روزگار مل جاتا۔ ہم نوکری کے حساب سے تعلیم حاصل کرنے کی بجائے اگر پسند کی تعلیم حاصل کرتے تو پھر بھیڑ میں جسکے پاس پیسہ اسکی نوکری کیلئے پانچ کے پچاس لاکھ نہیں دینے پڑتے۔ اس سب کے گزرجانے کے بعد پھر مجبوراً قرض لیکر ٹرک چلانا، ایندھن کے دام جو بھی ہوں کرایہ کا نہ بڑھنا، بڑھتا سود اور ہر ماہ قسط کی ادائیگی کیلئے پریشان نہ رہنا پڑتا۔ ٹرک چلایا یا نہیں ہم سے یہ نہیں پوچھا جائیگا البتہ ٹرک چلایا تو سودی قرض لیا کیوں تھا یہ سوال ضرور ہوگا۔
استاد سے یہ سوال ہوگا کہ نچلی ذات کا نہ ہوتے ہوئے بھی جھوٹ بول کر نچلی ذات کا کیوں بنا؟ جس جگہ تدریس کرتا تھا وہاں مقیم کیوں نہیں تھا؟ اردو کی تعلیم کیلئے معمور، خود کے بچّے اردو کیوں نہیں پڑھتے؟ مطلب آپکی تعلیم دینا ناقص اور تم اسے مان کر نقص دور نہیں کرتے، روزی حلال نہیں کرتے جو پہلے ہی دو بار مشکوک ہے! سب برابر ہیں اسکے لئے کوشش کرنے کی بجائے ذات پات کے نظام کو ختم کرنے کا سوچا ہوتا، لیکن نہیں اسمیں خوشی سے شامل ہوا۔ پھر قرض پر قرض لیا، حج مقروض پر فرض نہیں اسلئے گناہ پر گناہ کو گناہ لازم۔
ایم بی اے کرکے موٹی تنخواہ پانا گناہ نہیں لیکن اسکی بنیاد اگر سودی قرض ہے تو معمولی بابو بننے پر اکتفا کرتا۔ مینیجر کیوں نہیں بنے یہ سوال آخرت میں نہیں ہوگا۔
ابّا نے دادا سے یہ سوال نہیں کیا کہ مسجد کا کھیت یا گاؤں کی جاگیر آپکے نام کیسے کرلی؟ نام نہاد اونچی ذات کے تھے تو ماں بھی بگڑے دماغ کی آئی۔ غیروں کی "اعلیٰ" اسکول میں منت، سماجت اور ساری کمائی لگاکر پڑھایا۔ بچّہ کو اردو کا الف اور عربی کا اللہ نہیں دکھایا۔ پھر بھی میاں گِری کی اسلئے سرکاری میڈیکل کالج میں نمبر نہیں آیا۔ پھر جّگاڑ لگایا۔ سویت ہونین کے ایشیائی ممالک میں قائم کردہ میڈیکل کالج کے دلال "سر" کا رابطہ ہاتھ آیا۔ تاجکستان، کرغیزستان سب کو جہالت میں روس کیا رشیا بنایا۔ انہی میں سے کسی کو مغرب یعنی ولایت کا خیال آیا تو مغرب یعنی جرمنی، فرانس یا برطانیہ تو کیا ہاتھ پّرتا، بلغاریہ بھی راس آیا۔ وہاں داخلہ کیلئے مسجد کا پچایا کھیت بیچا تو بچّہ کھانے کی خرابی کی وجہ سے بھاگ آیا یا پھر جم ہی گیا تو ایم بی بی ایس کا محض کاغذ ساتھ لایا۔ اب صرف ایم بی بی ایس سے کام نہیں چلیگا کا کیڑا امّی کا کاٹ چکا تھا، کسی خاصگی کالج سے ایم ایس تو نہیں ہوتا، ایک کروڑ دیکر ایم ڈی کی سند چھاپنے کا طے پایا۔
چونکہ معالج یعنی ڈاکٹر تو سند کا نہیں عمل کا کام ہے، سرکاری ڈاکٹر بننے کا خیال آیا، لیکن کیا پھر سے ۵۰ لاکھ روپیہ نکل پایا!
سودی کاروبار سے لڑکر بغیر جان گنوائے شہید کا درجہ ملتا لیکن میاں کو مسلمان بننے سے زیادہ "کوالٹی لائف" جینے کی پڑی رہتی ہے۔ انکی نظر میں حق وہی ہے جس کی ذریعہ ان کو محنت نہ کرنی پڑے اور پیٹ بڑا ہونے کا سامان رہے۔ دواخانوں میں جانا، باہر کھانا، عمدا عمارت میں رہنا بھلے ہی اسکی صفائی کی سّدھ گھر میں نہ ہو، ارمانوں کے انبار ہونا۔۔۔۔۔
روزہ نماز سامنے والوں کے مزاج کے مطابق بتاتے ہیں کہ رشتہ ہاتھ سے نہ جائے۔۔۔۔