XI CLASS URDU

Followers

About Me

My photo
Manora ,District :Washim 444404, Maharashtra , India

Monday, 22 June 2020

1)-میری دعا

     1) - میری دعا     (صفی اورنگ آبادی)


https://youtu.be/egRV1HKgzQo?si=Ay2njGLHf2p0z5B8

(لنک کو کاپی پیسٹ کیجیے )


   1)کونین =دونوں جہاں (دنیا+آخرت)       2)غمگسار =ہمدرد، تیماردار
  3)مئے =شراب     4)خوشگوار =اچھے ذائقہ والی   5)گردشِ لہل ونہار =دن اور رات کا چکر مراد زندگی کے اتار چڑاو، آفت ومصیبت،پریشانی، خرابی قسمت  6) نالہ  =فریاد کرنا، روتے ہوئے کچھ کہنا  7)جگر گداز = دل پگھلانے والا، متاثرکن   8)نفس = سانس  9)داتا = فیاض، سخی  10)سائل = مانگنے والا   8)شیوہ =طریقہ   9)مستعار زندگی = ادھار لی ہوئی زندگی مراد دنیاوی زندگی جو مختصر سی ہوتی ہے 9) بقائے دوام =ہمیشہ باقی رہنے والی زندگی مراد مرنے کے بعد کی زندگی
10)درکار = مطلوب
--------------------------------------____-----------------___________-----------------_______--------------------





https://youtu.be/UomrTnHlR2Q

 


***********************★★***************************★*****★*★**********★************

اشعار کی استحسانی تشریح /استحسانی وضاحت:



























(*) ہدایات کے مطابق درج ذیل سرگرمیاں مکمّل کیجئے


1) مناجات میں اللہ تعالیٰ سے جن باتوں کی التجا کی گئی ہے، انہیں تفصیل سے لکھیے

جواب : (طلبہ اوپر دی گئیں 11 اشعار کی تشریحات کو یک کے بعد دیگرے مختصراً لکھیے) 

2)دنیا میں محبت کی قدر کی بقا کے لئے شاعر کی خواہش تحریر کیجیے 

جواب : (طلبہ نظم کے شعر نمبر 7 کی تشریح سے استفادہ کریں 

3)مناجات کی روشنی میں خدا کی صفات کے بارے میں لکھیے 

جواب : اللہ وہ ہے جو ہر ایک کی بگڑی سنوارتا ہے. اللہ اسے سے ہی مانگنے کا حکم دیتا ہے وہ حاجت روا ہے. دل کو اطمینان بس خدا ہی دے سکتا ہے. وہ غم کے ساتھ غم گسار بھی دیتا ہے. اچھے برے کی تمیز بھی خدا ہی دے سکتا ہے. خدا سخی ہے. خدا اپنے فضل و کرم سے سائل کو خالی ہاتھ نہیں لوٹا تا اس سے جتنی بار مانگو وہ اتنی بار عطا کرتا ہے. اس سے ایک مانگو وہ ہزار دیتا ہے 

4)حفاظت سے متعلق شاعر کی التجا کو بیان کیجیے 

جواب :(طلبہ شعر نمبر 6 کی تشریح سے مدد لیں) 

5)دنیا سے متعلق شاعر کے احساسات اور دعا کو لکھیے

جواب :شعر نمبر 7 کی تشریح دیکھیے

(*) درج ذیل کی استحسانی وضاحت کیجیے

جواب:(اشعار کی استحسانی وضاحت اوپر دی جا چکی ہے)

(*) درج ذیل مصرعے پر ذاتی رائے دیجیے

جواب : طلبہ ذاتی رائے از خود تیار کریں)

(*)ہدایات کے مطابق درج ذیل قواعدی سرگرمیاں مکمّل کیجیے

1) بقائے دوام اور زندگی مستعار جیسی ترکیبوں کے بارے میں لکھیے
جواب :طلبہ اس کا جواب خود تیار کریں
2)مناجات سے صنعت تضاد کا شعر تلاش کر کے لکھیے
جواب :محفوظ رکھ فریب سفید و سیاہ سے           گردش نہ مجھ کو گردش لیل و نہار دے


(*) درج ذیل فقروں کے لیے صرف ایک مصرعہ لکھیے 

(طلبہ یہ سرگرمی از خود حل کیجیے) 

👈صحیح متبادل کا انتخاب کرکے خالی جگہ پر کیجیے

   4) کونین میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ذلیل نہ کر۔
الف) سب کے روبرو۔   ب) سب کے سامنے
ج) ہرایک کے سامنے

5) دل کو ہر ایک طرح سے مطمئن بنانے کے لئے شاعر نے غم کے ساتھ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مانگا
الف) خوشگوار۔  ب) غمگسار  ج)شعلہ بار

6) لذت دیدار ہر دم مجھ کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔دےگا
الف)کیف مئےخوشگوار     ب)کیف مئے ناخوشگوار       ج) کف مئے خوشگوار

7) شاعر زندگی کے سبق سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کا مطلب سمجھنا چاہتا ہے
الف)بقاۓ دوام   ب)زندگی مستعار  ج)عزت وذلت

8) میں بار بار مانگو جو اے خدا مجھے تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دے
   الف)بار بار۔      ب)ایک بار۔      ج) ہر بار




نوٹ : اپنے طلبہ کو لغت اور ڈکشنری کے استعمال کی عادت ڈالیں ۔ لغت اور ڈکشنری کا استعمال تفہیم کے عمل کو آسان بنا دیتا ہے ۔نیز زبان دانی میں کلیدی رول ادا کرتا ہے

لغت کو اس لنک کی کاپی کو پلے اسٹور میں پیسٹ کرکے  ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں:

http://play.google.com/store/details?id=com.vovoapps.lughatoffline


Wednesday, 10 June 2020

4- نیا شاعر اور زندگی کے مسائل

  4)- نیا شاعر اور زندگی کے مسائل

۷

"شعلے کی شناخت" سے مراد ہے — انسان کے اندر کی وہ روشنی، جذبہ یا انفرادیت جو اسے دوسروں سے ممتاز بناتی ہے۔

اور "سرگرداں" یعنی تلاش میں، جستجو میں، بےقرار۔


👈"ربط ملت کے لیے فرد کا فنا ہونا ناگزیر نہیں ہے "

(وضاحت از طرف قاضی حسن الدین، شاہ بابو جونیئر کالج پاتور، ضلع آکولہ) 

انفرادیت اور اجتماعیت یہ دونوں الگ الگ نظریات ہیں ۔فرد اور ملت لازم و ملزوم ہیں ۔اقبال نے کیا خوب کہا ہے 
فردقایم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں 
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں 
اجتماعیت کا نظریہ انسانوں کو نظم و ضبط کے ساتھ اجتماعی زندگی گزارنے کی تعلیم دیتا ہے ۔ملت سے ربط کے بغیر فرد کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہتی  ۔موج کی ہستی دریا میں ہے بیرون دریا اس کا کوئی وجود نہیں ۔
دوسرا نظریہ انفرادیت کا ہے۔فرد  کی پسند نا پسند اور انفرادی فیصلوں پر اجتماعیت غالب نہ آئے ۔مغرب اس نظریہ کا حامی ہے ۔وہ کسی بھی فرد کو مذہب، خوردونوش، اور ازدواجی رشتوں کے اجتماعیت کا پابند نہیں بناتا ۔فرد جو مذہب چاہیے اختیار کریں جیسا چاہیے کھائے پئے اور جو لباس چاہیے پہنے۔اس معاملے میں وہ اعتدال سے اتنا بھٹکے کہ ہم جنس پرستی کو بھی انفرادیت کے نام پر حلال قرار دے دیا ۔
مصنف کہتا ہے کہ ربط ملت کے لیے فرد  کا فنا ہونا نا گزیر نہیں ہے یعنی ملت و قوم کی فلاح و بقا کے لئے آدمی کی انفرادیت کو قربان نہ کیا جاے ۔یہ بات شاعری کے پس منظر میں کہی گئی ہے ۔کسی شاعر کو مروجہ اسالیب، نظریات، استعارات و تشبیہات اور ردیف و قافیوں کا پابند کرنا اصل میں اس کی انفرادیت کو ختم کرنا ہے ۔شاعر کو یہ آزادی چاہیے کہ وہ جس اسلوب میں چاہے اپنے خیالات و نظریات کی ترسیل کرسکے ۔
مندرجہ بالا محاکمے کی روشنی میں یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ کسی بھی معاملے میں افراط و تفریط ادمی کو راہ راست سے بھٹکا دیتی ہے ۔اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم اعتدال کی راہ اختیار کریں ۔ملت کی بقا کے لیے اتنا غلو نہ کرے کہ فرد کی privacy ہی داو پر لگ جائے اور فرد کو اتنی آزادی بھی نہ دی جائے کہ وہ انفرادیت کے چکر میں اجتماعیت کو تباہ و برباد کردے۔

(*) نورتن تاریخ کے جھروکے میں :

مغل شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر نے 14سال کی عمر میں اپنے والد بادشاہ ہمایوں کے انتقال کے بعد حکومت سنبھالی جس میں سب سے اہم کردار اُنکے اتالیق بیرم خان کا تھا۔اُنھوں نے اپنی سرپرستی میں انتہائی وفاداری کے ساتھ اُنھیں ہندوستان کے تخت پر بٹھایا اور پھر ہندوستان کے شورش زدہ علاقوں میں سازشوں کا سد ِباب کیا۔اسطرح بادشاہ اکبر نے 1556ء تا1605ء تک تقریباً پچاس سال ہندستان پر حکومت بھی کی اور اس دوران اپنی سلطنت کو وسعت دینے کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ اس دوران شہنشاہ اکبر ِاعظم کے اہم درباریوں میں وہ "نورتن”بھی شامل تھے جن میں سے ہر ایک اپنی جگہ باکمال تھا اور اُن سب کی زندگی کے چند اہم پہلو ہی اُنکی وہ پہچان بنے جسکی وجہ سے آج بھی اُنکا ذکر مختلف شعبوں میں اہم سمجھا جاتا ہے۔
1- راجا بیربل:
اکبر اعظم کے نورتنوں میں سے ایک برہمن ہندو ۔نام مہیش داس ،ذات بھاٹ ۔ابتدا میں نہایت غریب اور پریشان حال تھے۔اکبر کی تخت نشینی پر دربار میں حاضر ہوئے اور اپنی لطیفہ گوئی اور حاضر جوابی کی وجہ سے بادشاہ کا قُرب حاصل کر لیا۔اکبر اُنھیں صاحب ِدانشور کہا کرتے تھے ۔ سنسکرت کے عالم تھے۔ بیربل مہم یوسف زئی (سوات و باجوڑ)کی لڑائی میں مارے گئے اور لاش نہ مل سکی ۔اس پر بادشاہ اکبر کو اتنا صدمہ ہوا کہ اُنھوں نے دو دن کھانا نہیں کھا یا ۔
2- ابوالفیض فیضی :
دربار اکبری کے رتن،شیخ مبارک کے بیٹے ، ابوالفضل کے بڑے بھائی ،بلند خیال شاعر اور شگفتہ مزاج عالم تھے۔ قرآن مجید کی تفسیر سواطع الالہام تحریر کی۔ جس میں نقطے والا کوئی حرف نہیں لکھا۔بارھویں صدی کے ثمر قند کے نظامی گنجوی کی مشہور ِزمانہ خمسہ ء نظامی (پانچ مثنویوں) کے جواب میں مثنویاں لکھ ڈالیں۔ہندوئوں کی اہم کتاب مہا بھارت کا ترجمہ فارسی میں کیا۔اپنے علم و حکمت کی وجہ سے شہزادوںکے اتالیق بھی رہے۔ دمہ کی بیماری میں 52سال کی عمر میں انتقال ہوا۔
3- ابو الفضل:
1572ء میں اپنے بڑے بھائی فیضی کے ساتھ دربار ِاکبری میں باریاب ہوئے اور 1600ء میں منصب ِچار ہزاری پر فائز ہوئے۔اپنے وقت کے علامہ اور بلند پایہ مصنف تھے۔علامی تخلص تھااور آزاد خیال فلسفی ہونے کی وجہ سے علماء اُنھیں دہریہ سمجھتے تھے۔اسی لئے اکبر کے "دین الٰہی” کے اجراء کا سبب اُنہی کو گردانا جاتا ہے۔”اکبر نامہ” اور” آئین اکبری” اہم تصانیف اور خطوط کا مجموعہـ” مکتوبِ علامی "فارسی ادب کا شکار سمجھا جاتا ہے۔شہزادہ سلیم (جہانگیر)کا خیال تھا کہ ابو الفضل اُسکے بیٹے خسرو کو ولی عہد بنانا چاہتے ہیں لہذااُنکے اشارے پر راجہ نر سنگھ دیو نے 53سالہ ابو الفضل کو اُس وقت قتل کر دیا جب وہ دکن سے لوٹ رہے تھے۔اعلیٰ ترین خوبی یہ تھی کہ کمال کے واقعہ نویس تھے۔
4- تان سین:
دربارِاکبری کے ایک ایسے اہم نورتن تھے جنکا نام آج بھی ہندوستان کے موسیقار ِاعظم کی حیثیت میں ہر ایک کی زبان پر ہے۔برصغیر ِکی کلاسکی موسیقی اُنکے راگوں پر ہی زندہ ہے۔ لہذا اُنکے بعد آنے والے اُستادوں نے راگ ودیا میں تبدیلی نہیں کی۔”دھرپت راگ” کو موجودہ فنی شکل تان سین نے ہی دی تھی۔درباری کانٹرا ،میاں کی ملہار اور میاں کا سا رنگ جیسے راگ بھی اُنہی کی کوششوں کا نتیجہ ہیں۔ وفات پر شنہنشاہ اکبر نے بھی شرکت کی۔
5- عبدالرحیم:
آپ بیرم خان کے فرزند تھے اور لاہور میں پیدا ہوئے۔والد کے قتل کے بعد جب ابھی اُنکی عمر 5سال تھی تو بادشاہ اکبر نے اُنھیں اپنے پاس بُلا لیا اور شہزادوں کے ساتھ پرورش کی۔ 20سال کی عمر میں شہزادہ سلیم (جہانگیر)کا اتالیق بنایا گیا۔ نہایت حسین تھا۔ مختلف معرکوں میں سپاہیانہ جوہر دکھائے اور کئی بغاوتوں کو ناکام کیا۔بہادر سپاہی ،عالم فاضل اور عربی،فارسی،ترکی ،سنسکرت کے ماہر تھے۔ ہندی میں شعر کہتے تھے۔ان سب خوبیوں کی وجہ سے اہم نورتن رہے۔ اُنکی وفات بادشاہ جہانگیر کے دور میں ہوئی۔
6- راجہ مان سنگھ:
برہمن ہندو تھے۔اُنکی وفاداری اور ملنساری اکبر بادشاہ کے دل پر نقش ہو گئی۔اُنکی رفاقت نے بادشاہ کو اپنائیت اور محبت سکھائی۔ بلکہ کہا جاتا ہے کہ اُنکی وجہ سے اکبر بادشاہ کو ہندوستان میں پذیرائی حاصل ہوئی اور تیموری خاندان کی بنیاد بھی مضبوط ہوئی۔بہادری اور جوانمردی میں اپنی مثال آپ تھے لہذا سپہ سالار بھی مقرر ہو ئے۔اُنکی بہن کی شادی جہانگیر سے ہوئی اور پھر جہانگیر کے بیٹے خسرو کے اتالیق بھی مقرر ہوئے۔
7- مُلا دوپیازہ:
اصل نام ابوالحسن اور پیدائش طائف نزد مکہ مکرمہ (عرب) کی تھی۔والد سوتیلی ماں سے اختلاف کی بنا پر گھر چھوڑ گئے تو اُنکی تلاش میں قافلہ در قافلہ سفر کرتے ہوئے ایران پہنچ گئے۔وہاں سے مغل فوج میں تعلق کی بناپرہندوستان آگئے اور ایک مسجد میں قیام کر لیا۔اپنی خوش خلقی اور لطیفہ گوئی سے شہر میں شہرت ہوئی تو ایک دعوت پر مدعو ہونے پر کھانا بہت پسند آیا ۔کھانے کا نام پوچھا تو جواب ملا کہ” دوپیازہ پلائو”۔اُنھوں نے کہا کہ آئندہ کسی بھی دعوت میں شرکت پر اس کھانے کی تمنا ہو گی۔بس وہاں سے ہی اس نام سے مشہور ہوگئے ۔60برس کی عمر میں بیماری کی وجہ سے انتقال ہوا۔
8- راجہ ٹو ڈرمل :
ذات میں کھتری ہندواور دربار ِاکبری میں مقام 22صوبوں کا دیوانِ کُل اور وزیر باتدبیر تھے۔بیوہ ماں کی دُعائوں سے اعلیٰ رُتبہ پایا۔سپاہ گیری اور سرداری کے جوہر نے بھی اُنکی اہمیت اُجاگرکی ۔پابندی ِآئین احکام میں کسی کو رعایت نہیں دیتے تھے لہذا اُن پر سخت مزاجی کا الزام تھا۔انتہائی قابل،معاملہ فہم اور دانشمند کہلائے۔بڑھاپے میں بیماری کی وجہ سے وفات پائی۔
9- مرزا عزیز کوکلتاش :
آپ کی والدہ نے اکبر کو دودھ پلایا تھا لہذا وہ اکبر بادشاہ کے رضاعی بھائی کہلائے اور اس وجہ سے اُنکا حترام بھی بہت تھا۔خان اعظم کا خطاب بھی حاصل ہوا۔ بادشاہ ہر وقت اُنھیں اپنے ساتھ رکھتے تھے اور ہاتھی پر سواری کے وقت اُنھیں خواصی پربٹھاتے تھے۔ ایک طرف سخاوت و شجاعت کی وجہ سے درباری پسند کرتے تھے تو دوسری طرف غصے و سخت مزاج کی وجہ سے چند اچھے انسان اُن سے نالاں بھی تھے۔ طبیعت میں زمانہ سازی بالکل نہ تھی۔ سپاہی کمال کے تھے ۔علمی وعملی صلاحیتوں میں عالمانہ مقام تھا۔فارسی کے ماہر تھے۔طبعی موت پائی۔

ہدایت کے مطابق سرگرمیاں حل کیجیے 

اقتباس نمبر 1 صفحہ نمبر 22: ہمارے عہد کی معاشرت کا سب سے بڑا المیہ.................. میری ذات غیر مشروط ہیں 
 سرگرمیاں از طرف صبیحہ مومن میڈم، ممبئی 


                مشقی سرگرمیاں (صفحہ نمبر 25)




































متبادلات 

 1) سیاست کی بیساکھیاں لگائے پھرنے والے۔۔۔۔۔

۲)مصنف سیاست کو جو سمجھتا ہے نہ حقیر نہ حرام

۳)سماج اسلئے نہیں ہے کہ افراد کو نگلنے والا۔۔۔۔۔۔۔

۴)سماج اور سیاست سے ملنے والا فائدہ شخصیت و کردار کی نشو و نما

۵) میں مشرق اور مغرب کے فرق و امتیاز کو۔۔۔۔۔۔

۶)یورپ اور امریکہ کے مقابلے ہندوستان کے مسائل درجات مختلف نوعیت ایک

۷)شعور اور احساس کی دنیا میں فنون و ادب نے اپنا یا ہے سیاست کا طرز عمل

۹) ہم لوگ ایک دوسرے کی تخلیقات سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱۰)شاعری کے لئے محدود و مخصوص لفظیات پر اصرار کرنا  لغوی اور عصبیت ہے

۱۱) میں اپنی شاعری میں لفظوں کا استعمال کچھ اس طرح کرتا ہوں کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱۲)جس کے بغیر بھی شاعری ممکن ہے عروضی موزونیت

۱۳)یہ ایک شعلہ ہے جو مصنف کے وجود کا۔۔۔۔۔۔

۱۵)نئی شاعری اب تک جو نہیں بنی ہے۔۔۔۔


نوٹ : اپنے طلبہ کو لغت اور ڈکشنری کے استعمال کی عادت ڈالیں ۔ لغت اور ڈکشنری کا استعمال تفہیم کے عمل کو آسان بنا دیتا ہے ۔نیز زبان دانی میں کلیدی رول ادا کرتا ہے

لغت کو اس لنک کی کاپی کو پلے اسٹور میں پیسٹ کرکے  ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں:

http://play.google.com/store/details?id=com.vovoapps.lughatoffline


Sunday, 7 June 2020

٣- شال - علی عباس حسینی

     ٣-   شال -  (علی عباس حسینی)


(اقتباس کے لحاظ سے سرگرمیاں پڑھنے کے لیے مندرجہ بالا لنک☝️کو کاپی پیسٹ کریں)



(*) خاکے پر مبنی سرگرمیاں 



ہدایات کے مطابق درج ذیل سرگرمیاں مکمّل کیجئے 

1)افسانے کی تعریف بیان کرکے اس کے اجزا کی نشاندہی کیجئے 


4)حمیدہ کی اس وقت کی کیفیت بیان کیجئے جب عبید نے اس کے کندھوں پر شال ڈالی



5)منع کرنے کے باوجود حمیدہ کے شال دینے پر عبید نے جو کچھ طے کیا، اسے تحریر کیجیے 


6)رکشے پر بیٹھتے وقت عبید نے سردی سے بچنے کا جو انتظام کیا، اسے بیان کیجیے
  (یا)






8 )عبید کی ذمہ داریاں بیان کیجیے




10)حمیدہ کا چور کو کوسنا بیان کیجیے 




13)افسانے کی روشنی میں اس کے کرداروں کا تعارف پیش کیجئے
عبید، حمیدہ، رکشے والا، عیدن

جواب :طلبہ یہ سرگرمی از خود حل کیجئے





(*) اسباب بیان کیجیے 

1) سخت سردی کے باوجود عبید کا شال نہ اوڑھنا :



3)عبید کا تعجب میں پڑنا:





(*) درج ذیل جملوں کی استحسانی وضاحت کیجئے

https://drive.google.com/file/d/15gVW5jO_FOU3iN5Jqj3tqlkYSQoXHGyF/view?usp=drivesdk
(جملوں کی استحسانی وضاحت مندرجہ بالا ☝️لنک پر کاپی کر کے حاصل کی جا سکتی ہے)










(*) ذیل میں دیے ہوئے موضوعات پر ذاتی رائے تحریر کیجیے 

(طلبہ ان سرگرمیوں کو از خود حل کیجیے) 

(*) ہدایت کے مطابق درج ذیل قواعدی سرگرمیاں مکمّل کیجئے 

1)محارے اور ان کا مفہوم 
1)مل ول جانا =سلوٹیں پڑجانا  2)کھوے سے کھوا چھلنا=بہت تکلیف ہونا 3)جان کھپانا =سخت محنت کرنا  4)پیچ و تاب کھانا =بیقرار ہونا 5)پانی پانی ہونا =بہت شرمندہ ہونا
        (ان محاوروں کا جملے میں استعمال طلبہ از خود کریں ) 

2)سبق سے رکشے والے کی مقامی زبان کے فقرے الگ کیجئے انہیں معیاری زبان میں لکھیے

     (طلبہ یہ سرگرمی از خود تیار کریں) 

...................................................................................................................................

            👈ایک جملے میں جواب دیجیے👉

1) چار باغ اسٹیشن کو لڑکی کی رخصتی کے بعد  کا گھر کہا گیا ہے وجہ بیان کیجیے۔  جواب :۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔2) عبید نے اپنی بیوی کی دی ہوئی شال نہ نکالی اسباب بیان کیجیے۔   جواب:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

3) حمیدہ کی خواہش کے بارے میں معلومات دیجئے۔ جواب:۔۔۔۔۔۔۔۔
4) حمیدہ کی شال کی خوبصورتی بیان کیجیے
جواب :۔۔۔۔۔۔۔۔۔
5) رکشے پر بیٹھتے وقت عبید کے پاس موجود سردی سے حفاظت کرنے والی چیزوں کا ذکر کیجئے
جواب :۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
6) پگلی کے تعلق سے شہر کے دولت مند لوگوں کی لاپرواہی بیان کیجیے
جواب :۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
7) عبید نے شال کے تعلق سے کون سے جھوٹی کہانی گھڑی بیان کیجیے
جواب :۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
8) شال چوری ہونے کی خبر سن کر حمیدہ پر ہونے والے ردعمل کو بیان کیجئے
جواب :۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
9) ماما عیدن نے حمیدہ کو جو مشورہ دیا اسے بیان کیجئے
جواب :۔۔۔۔۔۔۔۔۔

  👈 متبادلات پر مبنی سرگرمیاں/ خالی جگہ پر کیجیے👉

1) عبید جب ٹرین سے اترا تو اس وقت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بج جکے تھے
2)   عبید جشن بہار کے مشاعرے میں شریک ہونے۔۔۔۔۔۔گیا تھا
3)۔۔۔۔۔۔مہینے میں عبید جشن مشاعرہ میں شریک ہونے گیا تھا
4) حمیدہ نے شال ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں رکھا تھا۔
5)موۓ کیڑے کی کیا مجال کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
6) حمیدہ تھوڑی دیر سوچتی رہی پھر جھپٹ کر اپنی چہیتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نکال لائی
7) رکشے والا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تھا
8) عبید نےحمیدہ کی شال کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تہہ کھول کر ٹخنوں پر لٹکا دیا۔
9) رکشے والا اپنی ٹھنڈک دور کرنے کے لیے رکشہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔چلا رہا تھا۔
10) رکشے والے کے چہرے پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جھلک رہے تھے
11) جہاں ہاتھ پر ہاتھ ڈھرے بیٹھے رہے ، وہاں اپنی ہی جسم کی گرمی۔۔۔۔۔۔۔ بن جائیں گی
12) اس نے پوچھا ،'کہاں کے رہنے والے ہو؟
وہ بولا،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ِ
13) سارے  پردیسی  لکھنؤ کے ہر سفید پوش کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پکارنے لگتے ہیں۔
14) عبید ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں کام کرتا ہے۔
15)پگلی۔۔۔۔۔۔۔۔۔پر پڑی تھی
16) حمید نے اٹیچی کیس کھولا کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
17)عبید  نے جھوٹی کہانی گھڑی کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ِ۔۔
18(حمیدہ نے گھبرا کر عبید سے بلند آواز میں پوچھا۔۔۔۔۔۔
19)  مسافروں نے شال جس طرح لے گئے ۔۔۔۔۔۔۔۔
20) معلوم ہوتا ہے شال کروٹ لینے میں پھسل کر۔۔۔۔۔۔۔۔
21)عبید نے شرم سے گردن جھکائی اور۔۔۔۔۔۔۔۔







نوٹ : اپنے طلبہ کو لغت اور ڈکشنری کے استعمال کی عادت ڈالیں ۔ لغت اور ڈکشنری کا استعمال تفہیم کے عمل کو آسان بنا دیتا ہے ۔نیز زبان دانی میں کلیدی رول ادا کرتا ہے

لغت کو اس لنک کی کاپی کو پلے اسٹور میں پیسٹ کرکے  ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں:

http://play.google.com/store/details?id=com.vovoapps.lughatoffline



علامہ اقبال کا پیغام

  رِندانِ فرانسیس کا میخانہ سلامت پُر ہے مئے گُلرنگ سے ہر شیشہ حلَب کا ہے خاکِ فلسطیں پہ یہودی کا اگر حق ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہلِ عَر...