08- رباعیات۔۔۔۔۔۔میر انیس
👈 رباعی نمبر 01:
الفاظ معنی ::
1)دار فنا : موت کا گھر مراد دنیا
2) دام : پھندا ، جال (دام بلا : مصیبت کا جال)
3) : عدم
- کسی کام کے نہ کرنے یا کسی چیز کے نہ ہونے کی حالت، کسی امر کا نہ ہونا، (مرکبات میں نفی کے معنی میں آتا ہے) جیسے:عدم پیروی، عدم تعمیل، عدم تشدد وغیرہ
- نیستی، نہ ہونا، ناپیدی، نابودگی، معدوم ہونے کی حالت
- غیر حاضری
- ہمارے پیدا ہونےکے پہلے کا زمانہ
5) کارواں : قافلہ
6) سرا: سرائے،مسافر خانہ، lodge
(*) ہدایت کے مطابق سرگرمیاں مکمل کیجئے
👈کیا سوچ کے اس دار فنا میں آئے
آفت میں پھنسے، دام بلا میں آئے
اس طرح عدم سے آئے دنیا میں انیس
جیسے کوئی کارواں سرا میں آئے
(1) خاکہ مکمل کیجئے۔
(2)
تشریح: ہم کیا سوچ کر اس دنیا میں آئے تھے؟ کہ پرسکون زندگی گزاریں گے۔ مگر اس دمیں ایسی پریشانیاں ہے کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس دنیا میں آنا خود کو مصیبتوں میں گرفتار کروانا ہے۔ یہاں اتنی مصیبتیں اور پریشانیاں ہے کہ انسان ان کے ہی جال میں زندگی بھرپھنسارہتا ہے۔ پیدائش کے بعد سے ہی ان مصیبتوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے ہے اور موت تک جاری رہتا ہے۔ انسان سکون کی امید میں اور عیش و عشرت کی چاہ میں تمام مصیبتوں اور آفتوں کو برداشت کیے جاتا ہے۔ یہاں تک کہ موت کا وقت آجاتا ہے۔ جب انسان اپنی زندگی پر غور کرتا ہے تو اسے پتہ چلتا ہے کہ ہم نے زندگی کو پرسکون بنانے کے لئے مصیبتیں اور مشقتیں اٹھائی ہیں۔ مگر سکون نصیب نہیں ہوا۔ زندگی دیکھتے ہی دیکھتے ختم ہونے جا رہی ہے۔ اسے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اس دنیا کی زندگی کی میعاد تو بہت ہی قلیل ہے۔ اس قلیل مدت کو بیان کرنے کے لیے شاعر نے ایک تشبیہہ کا استعمال کیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ کوئی مسافر یا کوئی کارواں جب کسی سفر پر روانہ ہوتا ہے تو دوران سفر رفع تھکن کیلئے رات میں کسی سرائے میں آرام کرتا ہے۔وہ اس سرائے میں تھوڑا ہی وقت گزارتا ہے اور اپنی منزل کی طرف کوچ کر دیتا ہے ۔ ہماری زندگی بھی اسی سرائے میں گزارے ہوئے لمحات کے مانند ہے۔ جس طرح ایک مسافر سرائے میں کچھ وقت آرام کرنے کے بعد سفر پر نکل پڑتا ہے اسی طرح ہمارا بھی اصل سفر موت کے بعد کی زندگی ہے۔ اس دنیا میں ہم کچھ وقت گزارنے کے لیے آئے ہیں
رباعی نمبر 02
الفاظ معنی:
1) باطل : بیکار ، بیہودہ ، لغو
2) اندیشہ : فکر ، سوچ ، خوف
3) عقبی۔ : آخرت
4)سر انجام کرنا:انتظام کرنا،بندوبست کرنا
(*) ہدایت کے مطابق سرگرمیاں مکمل کیجئے
👈 اندیشہ باطل سحر و شام کیا

رباعی نمبر 5
الفاظ معنی :
1) اسیری : قید ، گرفتاری
2) شاہی : امیری، بادشاہی
3) ایام شباب: جوانی کے دن
4) طفلی : بچپن
5) پیری : بڑھاپا
(*) ہدایت کے مطابق سرگرمیاں مکمل کیجئے
👈 آزادی میں آفت اسیری آئی
شاہی نہ ہوئی تھی کہ فقیری آئی
ایام شباب کس کو کہتے ہیں ،انیس
موسم طفلی تھا ، پیری آئی
(2) اشعار کی تشریح کیجئے
تشریح: آزادی ہر شخص کی خواہش ہے۔ مگر آزادی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم بے راہ روی کی زندگی گزاریں۔ اگر ہم آزادی کے نام پر غلط عادتیں اختیار کرتے ہیں اور بے راہ روی کی زندگی گزارتے ہیں تو یہ آزادی وبال جان بن جاتی ہے۔ آزادی خوشحال زندگی گزارنے کا نام ہے۔ وقت کا صحیح استعمال کر کے ہم خوش حال زندگی حاصل کر سکتی ہیں۔ اگر انسان سستی کا اور غلط صحبتوں کا اسیر ہو جائے تو اس کی آزادی اس کے لئے مصیبت بھی بن سکتی ہے۔ یہ آزادی قید جیسی تکلیف دہ چیز بن جاتی ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ نوجوان بزرگوں کی سرپرستی نہ ملنے کی وجہ سے غلط عادتوں اور منشیات کی لت کا شکار ہوجاتی ہے اور اپنی جوانی کو برباد کر بیٹھتے ہیں۔ یہ بربادی اور یہ آفت صرف اور صرف نام نہاد آزادی کی وجہ سے ہی آئی۔ آزادی وبال جان بن گئی۔ جب آنکھ کھلتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ سب تباہ و برباد ہو گیا۔ مال دولت، پیسہ یہاں تک کہ جوانی بھی برباد ہوگئی۔ ایام جوانی ایسے گزر جاتے ہیں کہ پتا بھی نہیں چلتا کہ کب جوانی گزر گئی؟ اور کب پڑھاآ گیا؟ جب ہوش آتا ہے تو بس اتنا معلوم ہوتا ہے کہ ایام طفلی کے بعد سیدھےبڑھاپا ہی آیا ہے جوانی نام کا کوئی دور ان کی زندگی میں آیا ہی نہیں تھا۔ یہ ان لوگوں کا حال ہے جو آزادی کے نام پر اپنی جوانی کو برباد کردیتے ہے اور خرافات میں گرفتار ہوکرمال و دولت سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں اور غریب ہو جاتے ہیں۔ شاعر نے ان اشعار میں وقت کی قدر کرنے اور جوانی میں ملی آزادی کو صحیح طریقے سے استعمال کرنے کا درس دیا ہے۔ ان اشعار میں شاعر نے صنعت تضاد کااستعمال کیا ہے۔ آزادی اوراسیری، شاہی اور فقیری،شباب اور پیری ایک دوسرے کی ضد ہین۔
رباعی 06
الفاظ معنی :
1)عبث : بیکار فضول
2)غرہ :غرور
3) خورشید : سورج
4) خاک: مٹی
5) نہال : پودا ،درخت( نہال زندگانی: زندگی کا درخت)
6) آمد و شد : آنا اور جانا
7)دم۔ : سانس
8)ارہ۔ : آری
👈دو دن کی حیات پرعبث غرہ ہے
خورشید نہ بن ، خاک کا تو ذرہ ہے
مردم کے نہال زندگانی کے لئے
یہ آمد و شد دم کی نہیں ،ارہ ہے
(1) معلومات فراہم کیجئے
الف) زندگی کو کاٹنے والی :۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ب) درخت کو کاٹنے والی چیز:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ج) زندگی پر غرور کرنا فضول ہے کیونکہ:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
د) انسان کو سورج نہیں بننا چاہیے کیونکہ:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہ ) استعمال شدہ صنعت:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(2) اشعار کی تشریح کیجئےتشریح :زندگی کی بے ثباتی کا موضوع شاعروں کی خاص توجہ کا مرکز رہا ہے۔ یہ اس لئے بھی ہے کہ یہی وہ واحد سچ ہے جس سے انکار کی کوئی صورت ہی نہیں۔ گزرتا ہوا ہر لمحہ ہمیں بے ثباتی کے اسی احساس سے بھرتا ہے۔ زندگی کی تمام چمک دمک فناپذیری کی طرف رواں رواں ہے۔ اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے میر انیس کہتے ہیں کہ ہماری زندگی دو دن کی مہمان ہے۔ ہمیں اس پر بیکار غرور نہیں کرنا چاہیے۔ ہم اپنی زندگی میں کتنی بار مشاہدہ کرتے ہیں کہ خواہش اور آرزو کے شہر اپنے سینوں میں بنانے والے اور اپنی کامیابی اور دولت پر اترانے والے لوگوں کو فرشتہ اجل آن واحد میں قصہ ماضی بنا ڈالتا ہے۔ پھر غرور کیوں؟ یہ زندگی دو دن کی ہے۔ ہر کمال را زوال است۔ اس لیے انسان کو خود کو سورج نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ خاکساری سے کام لینا چاہیے۔ ہمیں یقین واثق ہے کہ آخر مرنا ہے ۔ساتھ میں ہم اس وہم میں بھی مبتلا ہے کہ موت ابھی نہیں آئیں گی ۔اس وہم کی وجہ سے اپنے بڑے بڑے کارناموں اور مال و دولت پر غور کرتے رہتے ہیں خدا بھولی باتیں کرتے رہتے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ سانسوں کی یہ آمدورفت ہماری زندگی کم کر رہی ہے۔ سانسوں کا آنا جانا زندگی نہیں ہے بلکہ یہ ہماری زندگی کے دنوں کو آری کی طرح کاٹ رہیں ہے۔ سانسوں کا چلنا موت کے قریب لے جانا ہے۔اگر زندگی کو ایک درخت تسلیم کرلیا جائے تو یہ آتی جاتی سانسیں ایک آری کی طرح ہے جو زندگی کے درخت کو کاٹے جارہی ہے۔شاعر نے اس رباعی میں صنعت استعارہ کا استعمال کیا ہے۔ ان اشعار میں شاعر نے زندگی کی بے ثباتی کا بیان کرنے کے لیے نہایت موزوں الفاظ کا استعمال کیا ہے۔ میر انیس کے ان خیالات کو امیر مینائی نے بھی کچھ اس طرح بیان کیا ہے
زیست کا اعتبار کیا ہے امیر
آدمی بلبلا ہے پانی کا
وہ اساتذہ قابل مبارکباد ہیں جن کی اپنے طلبا کے لیے محنتیں جاری ہیں ایسے ہی اساتذہ میںی ںسر فہرست لئیق احمد ہیں۔میں مبارک باد دیتی ہوں تہہ دل سے۔کا
ReplyDelete