XI CLASS URDU

Followers

About Me

My photo
Manora ,District :Washim 444404, Maharashtra , India

Thursday, 4 November 2021

08 - رباعیات۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میر انیس

      08- رباعیات۔۔۔۔۔۔میر انیس

  👈 رباعی نمبر 01:

 الفاظ معنی ::

  1)دار فنا  :  موت کا گھر مراد دنیا

2) دام : پھندا ، جال (دام بلا : مصیبت کا جال)

3) : عدم

  • کسی کام کے نہ کرنے یا کسی چیز کے نہ ہونے کی حالت، کسی امر کا نہ ہونا، (مرکبات میں نفی کے معنی میں آتا ہے) جیسے:عدم پیروی، عدم تعمیل، عدم تشدد وغیرہ
  • نیستی، نہ ہونا، ناپیدی، نابودگی، معدوم ہونے کی حالت
  • غیر حاضری
  •  ہمارے پیدا ہونےکے پہلے کا زمانہ

 5) کارواں : قافلہ 

6) سرا: سرائے،مسافر خانہ، lodge

(*) ہدایت کے مطابق سرگرمیاں مکمل کیجئے 

👈کیا سوچ کے اس دار فنا میں آئے

 آفت میں پھنسے، دام بلا میں آئے

 اس طرح عدم سے آئے دنیا میں انیس

 جیسے کوئی کارواں سرا میں آئے

(1) خاکہ مکمل کیجئے۔




(2)
 ان اشعار میں شاعر کے پیغام کی استحسانی وضاحت کیجئے/تشریح کیجئے

 تشریح:  ہم کیا سوچ کر اس دنیا میں آئے تھے؟  کہ پرسکون زندگی گزاریں گے۔ مگر اس دمیں ایسی پریشانیاں ہے کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس دنیا میں آنا خود کو مصیبتوں میں گرفتار کروانا ہے۔ یہاں اتنی مصیبتیں اور پریشانیاں ہے کہ انسان ان کے ہی جال میں زندگی بھرپھنسارہتا ہے۔ پیدائش کے بعد سے ہی ان مصیبتوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے  ہے اور موت تک جاری رہتا ہے۔ انسان سکون کی امید میں اور عیش و عشرت کی چاہ میں تمام مصیبتوں اور  آفتوں کو برداشت کیے جاتا ہے۔ یہاں تک کہ موت کا وقت آجاتا ہے۔ جب انسان اپنی زندگی پر غور کرتا ہے تو اسے پتہ چلتا ہے کہ ہم نے زندگی کو پرسکون بنانے کے لئے مصیبتیں اور مشقتیں اٹھائی ہیں۔ مگر سکون نصیب نہیں ہوا۔ زندگی دیکھتے ہی دیکھتے ختم ہونے جا رہی ہے۔ اسے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اس دنیا کی زندگی کی میعاد تو بہت ہی قلیل ہے۔ اس قلیل مدت کو بیان کرنے کے لیے شاعر نے ایک تشبیہہ کا استعمال کیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ کوئی مسافر یا کوئی کارواں جب کسی سفر پر روانہ ہوتا ہے تو دوران سفر رفع تھکن کیلئے رات میں کسی سرائے میں آرام کرتا ہے۔وہ اس  سرائے میں  تھوڑا ہی وقت گزارتا ہے اور  اپنی منزل کی طرف کوچ کر دیتا ہے ۔ ہماری زندگی بھی اسی سرائے  میں گزارے ہوئے لمحات کے مانند ہے۔ جس طرح ایک مسافر سرائے میں کچھ وقت  آرام کرنے کے بعد  سفر پر نکل پڑتا ہے اسی طرح ہمارا بھی اصل سفر موت کے بعد کی زندگی ہے۔ اس دنیا میں ہم کچھ وقت گزارنے کے لیے آئے ہیں

رباعی نمبر 02

 الفاظ معنی:

1) باطل :  بیکار ،  بیہودہ ،  لغو

2) اندیشہ : فکر ، سوچ ، خوف 

3) عقبی۔ :  آخرت 

4)سر انجام کرنا:انتظام کرنا،بندوبست کرنا

(*) ہدایت کے مطابق سرگرمیاں مکمل کیجئے

  👈  اندیشہ باطل سحر و شام کیا

 عقبی کا نہ ہائے، کچھ سرانجام کیا
 ناکام چلے جہاں سے ،افسوس انیس
 کس کام کو یاں آئے تھے ،کیا کام کیا





(01)





(2) رباعی کی تشریح کیجئے

  تشریح : شاعر دنیا کی فکر رات دن کرتا رہا۔ اپنی پوری زندگی دنیا بنانے اور اسے سنوارنے میں گزار دی۔دنیا کمانے  میں آخرت کی فکر بھی نہ کی۔ دنیا کا ہر انسان بھی ایسی ہی زندگی گزارتا ہے۔ موت کے بعد آنے والی ہمیشہ ہمیش کی زندگی کے سامان کا بندوبست نہیں کرتا۔ شاعر خود پر افسوس کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اس نے آخرت کی ذرا بھی فکر  نہ کی اور اسکے سفر کا انتظام نہ کیا اور  رات دن اپنی دنیا بنانے کی فکر کی۔ اب جبکہ موت قریب ہے دنیا سنوارنے کے لئے کی گئیں تمام کوششیں شاعر کو فضول، بے کار اور بیہودہ نظر آ رہی ہیں۔ اسے افسوس ہے کہ وہ اس دنیاسے ناکام ہو کر جا رہا ہے۔ اسے اس بات کا بھی افسوس ہے کہ وہ اس دنیا میں جس کام کے لئے آیا تھا وہ اسے بھی بھول گیا۔مومن کو اس دنیا میں نیابت الہی کے منصب پر فائز کیا گیا ہے مگر افسوس ہم اس کام کو بھول گیے  اور دنیا کی فضول اور لغو باتوں کے حصول میں دن اور رات ایک کرنے لگے۔ بقول علامہ اقبال  مومن کو چاہیے کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
     نقطہ پرکار حق مرد خدا کا یقین
 اور یہ عالم تمام وہم و طلسم و مجاز
      مگر انسان عالم کی تمام بیکار چیزیں کے تعاقب میں لگا ہوا ہے۔ اور آخرت کو بھلا بیٹھا ہے۔ مگر جب اسے ہوش آتا ہے۔ افسوس کرنے کے سوا کچھ باقی نہیں رہتا۔
    میر انیس نے اس رباعی میں آخرت کی فکر کرنے کا درس دیا ہے۔اسی درس کو کسی شاعر نے کیا خوب بیان کیا ہے کہ
   غفلت میں گنوا کے صبح کو شام کیا
 افسوس،یہاں آکے نہ کچھ کام کیا
 کس طرح خدا کو منہ دکھاؤں گا شاد
 عقبی کا نہ کچھ ہائے، سرانجام کیا
                


    رباعی نمبر 03

 الفاظ معنی:
 1)سرگرانی :  پریشانی
2)سایہ جوانی کاجانا:جوانی ختم ہو جانا
3) ہاتھ پاؤں مارنا: بہت کوشش کرنا

(*) ہدایت کے مطابق  سرگرمی مکمل کیجئے

👈 جب اٹھ گیا سایہ جوانی سرسے
 پھر ہوگی جدا نہ سرگرانی سرسے
 کچھ ہوگا نہ ہاتھ پاؤں مارے سےانیس
 جس وقت گزر جائے گا پانی سرسے

(1) متعلقہ  معلومات فراہم کرکے ستون مکمل کیجئے۔







(2) ان اشعار کی استحسانی وضاحت کیجئے/ تشریح کیجئے
 تشریح: عقلمند وہ ہے جو موت سے پہلے موت کی تیاری کی تیاری کر لے۔ زندگی کے بہترین اوقات ایام جوانی کے ہوتے ہیں۔ یہ ایسا دور ہوتا ہے جب ہاتھ پاؤں مارے جا سکتی ہے۔ یعنی ہم آخرت کما سکتے ہیں کیونکہ عمر کے اس پڑاؤ میں ہم کسی بھی پریشانی کو باآسانی حل کر سکتے ہیں۔ مگر انسان کی فطرت یہ ہے کہ وہ آج کا کام کل پر ٹالتے رہتا ہے۔ نیکی کے عمل کو بھی کل پر ٹالتا رہتا ہے۔ نماز کل سے باقاعدہ ادا کریں گے۔ روزے کی بھی پابندی کریں گے۔ آئندہ خیرات و زکوۃ بھی ادا کریں گے۔غرض کہ عمل فردہ جاری رہتا ہے۔ یہاں تک کہ جوانی کا قیمتی وقت نکل جاتا ہے اور بڑھاپا آ جاتا ہے۔ جب جوانی کا سایہ سر سے اٹھ جاتا ہے تو قوت و توانائی باقی نہیں رہتیں۔ بڑھاپے میں فکریں اور پریشانیاں بھی بڑھ جاتی ہیں۔ ان  پریشانیوں میں ہماری نیکی کر نےکے عزم و ارادے بھی مجروح ہونے لگتے ہیں۔ بڑھاپے میں ہم اگر نیکی کا کوئی کام کرنا بھی چاہے تو اتنی طاقت اور جوش کے ساتھ نہیں کر سکتے جتنی  طاقت اور جوش کے ساتھ ہم جوانی میں کر سکتے تھے۔ بڑھاپے میں ہاتھ پاؤں مارنے سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔
     شاعر نے 'ہاتھ پاؤں مارنا' اور 'پانی سر سے گزر جانا'جیسے محاوروں بڑی مہارت کے ساتھ استعمال کیے ہیں



          رباعی نمبر 04

 👈کیوں زر کی ہوس میں آبرو دیتا ہے
 ناداں یہ کسےفریب تو دیتا ہے
 لازم نہیں اپنے منہ سے تعریف انیس
 خالص ہے جو مشک آپ بو دیتا ہے

 تشریح :  انسان دن رات دنیا اور دنیاوی چیزوں کے حصول کی فکروں میں سرگرم رہتا ہے اور اپنی آخرت سے روگردانی کرتا رہتا ہے۔ وہ مال و زر کی ہوس میں اتنا پاگل ہوا جا رہا ہے کہ اسے حاصل کرنے میں کسی بھی حد تک چلا جارہا ہے۔ وہ جائز اور ناجائز طریقے کی بھی تمیز نہیں کرتا۔ اس طرح وہ آخرت بھی بگاڑ دیتا ہے۔ ضروریات زندگی کے حصول کی سعی میں وہ  ایسے راستے اختیار کرتا ہے کہ لوگوں کی نظر میں بےآبرو ہوجاتا ہے۔ انسان سوچتا ہے کہ مال و دولت کے حصول کی کوششیں اسے عزت اور نام دیں گی۔ مگر اس کی یہ سوچ ایک فریب کے سوا کچھ نہیں۔ وہ یہ بھول بیٹھا ہے کہ عزت و شہرت اچھے اعمال سے ملتی ہے  نہ کہ ریاکاری اور نمائش سے۔ اس حقیقت کو بیان کرنے کے لیے شاعر نے مشک خالص کی مثال دی ہے۔ جس طرح مشک کی خوشبو اپنی خوبی کی وجہ سے خود بخود پھیل جاتی ہے اسی طرح آپ کے اعمال کی خوشبو بھی سماج میں پھیل جائیں گی اعمال کی خوشبو کو پھیلانے کے لیے ریاکاری کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ خود کی تعریف کروانے کے لئے لوگوں کے سامنے منہ میاں مٹھو بننے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر آپ کے اعمال صحیح ہے تومشک کی خوشبو کی طرح  آپ کی عزت خودبخودعوام میں بڑھ جائیں گی۔ لوگوں کی نظر میں عزت پانے کے لئے فضول میں بناوٹی نمائش نہیں کرنی چاہیے ۔


       رباعی نمبر 5


الفاظ معنی :


1) اسیری : قید ، گرفتاری
2) شاہی :  امیری، بادشاہی
3) ایام شباب: جوانی کے دن
4) طفلی :  بچپن
5) پیری : بڑھاپا

(*) ہدایت کے مطابق سرگرمیاں مکمل کیجئے

👈 آزادی میں آفت اسیری آئی
شاہی نہ  ہوئی تھی کہ فقیری آئی
ایام شباب کس کو کہتے ہیں ،انیس
موسم طفلی تھا ، پیری آئی


(2)  اشعار کی تشریح کیجئے

تشریح:  آزادی ہر شخص کی خواہش ہے۔ مگر آزادی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم بے راہ روی کی زندگی گزاریں۔ اگر ہم آزادی کے نام پر غلط عادتیں اختیار کرتے ہیں اور بے راہ روی کی زندگی گزارتے ہیں تو یہ آزادی وبال جان بن جاتی ہے۔ آزادی خوشحال زندگی گزارنے کا نام ہے۔ وقت کا صحیح استعمال کر کے ہم خوش حال زندگی حاصل کر سکتی ہیں۔ اگر انسان سستی کا اور غلط صحبتوں کا اسیر ہو جائے تو اس کی آزادی اس کے لئے مصیبت بھی بن سکتی ہے۔ یہ آزادی قید جیسی تکلیف دہ چیز بن جاتی ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ نوجوان بزرگوں کی سرپرستی نہ ملنے کی وجہ سے غلط عادتوں اور منشیات کی لت کا شکار ہوجاتی ہے اور اپنی جوانی کو برباد کر بیٹھتے ہیں۔ یہ بربادی اور یہ آفت صرف اور صرف نام نہاد آزادی کی وجہ سے ہی آئی۔ آزادی وبال جان بن گئی۔ جب آنکھ کھلتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ سب تباہ و برباد ہو گیا۔ مال دولت، پیسہ یہاں تک کہ جوانی بھی برباد ہوگئی۔ ایام جوانی ایسے گزر جاتے ہیں کہ پتا بھی نہیں چلتا کہ کب جوانی گزر گئی؟ اور کب پڑھاآ گیا؟ جب ہوش آتا ہے تو بس اتنا معلوم ہوتا ہے کہ ایام طفلی کے بعد سیدھےبڑھاپا ہی آیا ہے  جوانی نام کا کوئی دور ان کی زندگی میں آیا ہی نہیں تھا۔ یہ ان لوگوں کا حال ہے جو آزادی کے نام پر اپنی جوانی کو برباد کردیتے ہے اور خرافات میں گرفتار ہوکرمال و دولت سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں اور غریب ہو جاتے ہیں۔ شاعر نے ان اشعار میں وقت کی قدر کرنے اور جوانی میں ملی آزادی کو صحیح طریقے سے استعمال کرنے کا درس دیا ہے۔ ان اشعار میں شاعر نے صنعت تضاد کااستعمال کیا ہے۔ آزادی اوراسیری، شاہی اور فقیری،شباب اور پیری ایک دوسرے کی ضد ہین۔



          رباعی 06


الفاظ معنی :
1)عبث : بیکار فضول
2)غرہ :غرور
3) خورشید : سورج
4) خاک: مٹی
5) نہال : پودا ،درخت( نہال زندگانی: زندگی کا درخت)
6) آمد و شد : آنا اور جانا
7)دم۔ : سانس
8)ارہ۔ : آری
(*) ہدایت کے مطابق سرگرمیاں مکمل کیجئے

    👈دو دن کی حیات پرعبث غرہ ہے
    خورشید نہ بن ، خاک کا تو ذرہ ہے
مردم کے نہال زندگانی کے لئے
یہ آمد و شد دم کی نہیں ،ارہ ہے

(1) معلومات فراہم کیجئے

الف) زندگی کو کاٹنے والی :۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ب) درخت کو کاٹنے والی چیز:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ج) زندگی پر غرور کرنا فضول ہے کیونکہ:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

د) انسان کو سورج نہیں بننا چاہیے کیونکہ:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہ ) استعمال شدہ صنعت:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(2) اشعار کی تشریح کیجئے

تشریح :زندگی کی بے ثباتی کا موضوع شاعروں کی خاص توجہ کا مرکز رہا ہے۔ یہ اس لئے بھی ہے کہ یہی وہ واحد سچ ہے جس سے انکار کی کوئی صورت ہی نہیں۔ گزرتا ہوا ہر لمحہ ہمیں بے ثباتی کے اسی احساس سے بھرتا ہے۔ زندگی کی تمام چمک دمک فناپذیری  کی طرف رواں رواں ہے۔ اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے میر انیس کہتے ہیں کہ  ہماری زندگی دو دن کی مہمان ہے۔ ہمیں اس پر بیکار غرور نہیں کرنا چاہیے۔ ہم اپنی زندگی میں کتنی بار مشاہدہ کرتے ہیں کہ خواہش اور آرزو کے شہر اپنے سینوں میں بنانے والے اور اپنی کامیابی اور دولت پر اترانے والے لوگوں کو فرشتہ اجل آن واحد  میں قصہ ماضی بنا ڈالتا ہے۔ پھر غرور کیوں؟ یہ زندگی دو دن کی ہے۔ ہر کمال را زوال است۔ اس لیے انسان کو خود کو سورج نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ خاکساری سے کام لینا چاہیے۔  ہمیں یقین واثق ہے کہ آخر مرنا ہے ۔ساتھ میں ہم اس وہم میں بھی مبتلا  ہے کہ موت ابھی نہیں آئیں گی ۔اس وہم کی وجہ سے اپنے بڑے بڑے کارناموں اور مال و دولت پر غور کرتے رہتے ہیں خدا بھولی باتیں کرتے رہتے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ سانسوں کی یہ آمدورفت ہماری زندگی کم کر رہی ہے۔ سانسوں کا آنا جانا زندگی نہیں ہے بلکہ یہ ہماری زندگی کے دنوں کو آری کی طرح کاٹ رہیں ہے۔ سانسوں کا چلنا موت کے قریب لے جانا ہے۔اگر زندگی کو ایک درخت تسلیم کرلیا جائے تو یہ آتی جاتی سانسیں ایک آری کی طرح ہے جو زندگی کے درخت کو کاٹے جارہی ہے۔شاعر نے اس رباعی میں صنعت استعارہ کا استعمال کیا ہے۔ ان اشعار میں شاعر نے زندگی کی بے ثباتی کا بیان کرنے کے لیے نہایت موزوں الفاظ کا استعمال کیا ہے۔ میر انیس کے ان خیالات کو امیر مینائی نے بھی کچھ اس طرح بیان کیا ہے


زیست کا اعتبار کیا ہے امیر
آدمی بلبلا ہے پانی کا
نوٹ : ٹیچر حضرات کو چاہیے کہ وہ طلبہ کی مدد کریں نیز اردو لغت کے استعمال کی عادت ڈلوائیں)

1 comment:

  1. وہ اساتذہ قابل مبارکباد ہیں جن کی اپنے طلبا کے لیے محنتیں جاری ہیں ایسے ہی اساتذہ میںی ںسر فہرست لئیق احمد ہیں۔میں مبارک باد دیتی ہوں تہہ دل سے۔کا

    ReplyDelete

مسلمانوں کی موجودہ ابتر حالت اور جنگ آزادی میں مسلمانوں کی قربانیاں

مسلمانوں کی موجودہ ابتر حالت اور جنگ آزادی میں مسلمانوں کی قربانیاں دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ جب تک مسلمان علم، اتحاد، اور کردار کے زیور سے آ...