XI CLASS URDU

Followers

About Me

My photo
Manora ,District :Washim 444404, Maharashtra , India

Monday, 12 December 2022

سوال نمبر 5۔ فیچر نویسی

 



فیچر نویسی:

 نوجوان نسل اور سوشل میڈیا 

ممبئی(ایجنسی ) :

             
            نوجوان نسل اور سوشل میڈیا کا باہمی رشتہ ہمارے عہد کی ایک نئی داستان ہے۔ وہ زمانہ گزر گیا جب کھڑکیوں کے پاس بیٹھے خطوط کی آمد کا انتظار کیا جاتا تھا، یا گلی کے نکڑ پر دوستوں کی محفلیں داستانیں رقم کرتی تھیں۔ اب انگلیوں کی پوروں پر بنی ورچوئل دنیا نے احساسات، تعلقات اور رویّوں کے تمام پیمانے بدل دیے ہیں۔ نوجوان ایک اسکرین کی روشنی میں پوری دنیا کو آباد دیکھتا ہے، مگر کبھی کبھی اپنے دل کا صحن خالی محسوس کرتا ہے۔

            سوشل میڈیا ایک ایسا میدان ہے جہاں اظہار کی آزادی بھی ہے اور رائے کے تیز نشتر بھی۔ یہاں تخلیق کے چراغ جلتے ہیں، علم کے دروازے کھلتے ہیں، اور ایسے نوجوان سامنے آتے ہیں جن کی آواز کبھی مقامی گلیوں سے آگے نہ بڑھ سکتی تھی، مگر اب وہ عالمی مباحث کا حصہ بن چکے ہیں۔ چھوٹے کاروباروں سے لے کر سماجی مہمات تک، نوجوانوں نے اس پلیٹ فارم کو تبدیلی کی ایک قوت بنا دیا ہے۔ یہ عہد اس بات کا گواہ ہے کہ یک طرفہ ابلاغ کا دور ختم ہو چکا، یہاں ہر شخص ایک میڈیا ہاؤس ہے، ایک نشراتی ادارہ، جس کی سوچ اور الفاظ پھیلتے پھیلتے ایک تحریک کی شکل اختیار کر سکتے ہیں۔

              لیکن اس روشن اسکرین کے پیچھے کچھ دھندلے سائے بھی ہیں۔ ہر تصویر حقیقت نہیں ہوتی، ہر مسکراہٹ بےنیاز نہیں ہوتی، ہر کامیابی کا اعلان کامیاب زندگی کی دلیل نہیں ہوتا۔ نوجوانوں میں خود کو منوانے اور نظر آنے کا جنون بڑھتا جا رہا ہے۔ لائکس اور فالوورز کی دوڑ نے اعتماد کی کایا بدل دی ہے۔ ایک نامعلوم خلاء ہے جو بے شمار دلوں میں پیدا ہو رہا ہے؛ ایسی تنہائی جو بھیڑ میں بھی ساتھ رہتی ہے، اور ایسے موازنوں کی اذیت جو دوسروں کی چمکتی اسکرینوں سے اپنا وجود ٹٹولنے لگتی ہے۔

             سائبر بُلیئنگ، جعلی خبروں اور ورچوئل شناختوں نے نئے سماجی خطرات کو جنم دیا ہے۔ آن لائن شہرت کے بدلے بعض نوجوان اپنی رازداری، وقت اور ذہنی سکون تک قربان کرنے لگے ہیں۔ والدین، اساتذہ اور سماج یہ سوچنے پر مجبور ہو چکا ہے کہ یہ تیز رفتار رابطے کا زمانہ ہے یا تیز رفتار تنہائی کا؟
                اس کے باوجود سوشل میڈیا ایک نعمت بن سکتا ہے اگر نوجوان اس کا استعمال مقصد اور حکمت کے ساتھ کریں۔ تحقیق، تعلیم، رابطہ کاری، ثقافتی تبادلے، زبانوں اور فنون کی ترویج، اور مثبت مکالمے اس پلیٹ فارم کی روشن جہتیں ہیں۔ اصل ضرورت اس احساس کی ہے کہ سوشل میڈیا زندگی کا مکمل متن نہیں بلکہ محض ایک حاشیہ ہے۔ اصل تعلقات آنکھوں کی چمک میں بستے ہیں، ہاتھوں کی حرارت میں محفوظ ہوتے ہیں، اور مکالمے کی سانسوں سے تازگی پاتے ہیں۔
               نئے عہد کی یہ تہذیب نوجوانوں کے ذہنوں کو وسعت بھی دیتی ہے اور کبھی کبھی دلوں کو تھکن بھی۔ سوال یہ نہیں کہ سوشل میڈیا اچھا ہے یا برا۔ سوال یہ ہے کہ ہم اسے کس طرح استعمال کرتے ہیں۔ اگر اسکرین روشنی بانٹے تو یہی ٹیکنالوجی انسانیت کو نئے راستے دکھا سکتی ہے، اور اگر یہ روشنی آنکھوں کو خیرہ کر دے تو منزلیں کھو بھی سکتی ہیں۔




فیچر نویسی

تعلیم میں جدید ٹیکنالوجی کا بڑھتا ہوا استعمال 

ممبئی(ایجنسی) : یہ دور وہ دور ہے جس میں تعلیم نے اپنی سرحدیں کتابوں کے اوراق سے نکال کر اسکرینوں تک پھیلا دی ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی نے سیکھنے اور سکھانے کے عمل کو نہ صرف تیز تر بنا دیا ہے بلکہ اسے اس قدر وسعت دی ہے کہ دنیا کے کسی بھی کونے میں بیٹھا طالب علم اب علم کے کسی بھی سرچشمے تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔ وہ زمانہ گزر چکا ہے جب تعلیم صرف کلاس روم، بلیک بورڈ اور چاک کی محتاج تھی۔ آج ڈیجیٹل ایپلی کیشنز، آن لائن کورسز، ویڈیو لیکچرز، اسمارٹ کلاس رومز اور ای لائبریریوں نے ایسا ماحول فراہم کر دیا ہے جہاں علم انگلی کی پور پر موجود ہے۔

             انٹرنیٹ اور سمارٹ ڈیوائسز نے علم کو محدود نہیں رہنے دیا بلکہ اسے کھول کر پوری دنیا کے سامنے رکھ دیا۔ کسی موضوع پر تحقیق اب محض لائبریریوں کی گرد آلود الماریوں میں کتب تلاش کرنے کا نام نہیں، بلکہ چند لمحوں میں ہزاروں مقالات، تحقیقی جرائد اور ماہرین کی آراء دستیاب ہو جاتی ہیں۔ آن لائن کلاسز نے فاصلے مٹا دیے ہیں۔ دنیا کے ایک حصے میں بیٹھا استاد کسی دوسرے ملک کے طالب علم کو پڑھا سکتا ہے اور یوں تعلیم ایک عالمی رابطے میں تبدیل ہو چکی ہے۔ کورونا وبا کے بعد تو یہ حقیقت مزید واضح ہوئی کہ ڈیجیٹل تعلیم اب مستقبل کی نہیں بلکہ حال کی ضرورت ہے۔

            ٹیکنالوجی نے اساتذہ اور طلبہ کے درمیان سیکھنے کا روایتی یک طرفہ سلسلہ بھی بدل دیا ہے۔ اب طالب علم محض سننے والا نہیں بلکہ سرگرم شریک کار ہے۔ اسمارٹ بورڈز، ویڈیو پریزنٹیشنز، تھری ڈی ماڈلز، ورچوئل سائنس لیبز اور سمیولیٹرز نے ایسے موضوعات کو بھی دلچسپ اور قابل فہم بنا دیا ہے جو پہلے خشک اور مشکل تصور کیے جاتے تھے۔ ریاضی کے پیچیدہ سوالات اور سائنس کے تجربات اب صرف الفاظ کی صورت میں نہیں بلکہ آنکھوں کے سامنے حرکت کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اور طلبہ انہیں بارہا دہرا کر بہتر طریقے سے سمجھ سکتے ہیں۔

                  مصنوعی ذہانت نے تعلیم کو مزید ایک نئی سمت دی ہے۔ اب ایسے سسٹمز موجود ہیں جو ہر طالب علم کی کارکردگی، ذہنی رفتار اور سیکھنے کے انداز کے مطابق اسے مخصوص مواد فراہم کرتے ہیں۔ اس سے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ کمزور طلبہ پیچھے نہیں رہتے اور تیز سیکھنے والے آگے بڑھنے کے مواقع پاتے ہیں۔ اساتذہ کے لیے بھی تدریسی عمل پہلے سے زیادہ منظم اور آسان ہو چکا ہے۔ حاضری، اسائنمنٹس، نتائج کی تیاری اور والدین سے رابطے جیسے کام ڈیجیٹلی انجام پا رہے ہیں جس سے وقت بچتا ہے اور تعلیمی شفافیت بھی بڑھتی ہے۔

           تاہم ٹیکنالوجی کے یہ بے شمار فائدے ہمیں اس کی ذمہ دارانہ استعمال کی طرف بھی متوجہ کرتے ہیں۔ ڈیجیٹل سہولیات تک یکساں رسائی نہ ہونے کے باعث پسماندہ علاقوں کے بچے اس عمل میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ اسکرین کے طویل استعمال سے صحت کے مسائل جنم لیتے ہیں۔ غیر ضروری استعمال سوشل میڈیا کی لت، توجہ کی کمی اور غیر سنجیدہ علمی رویوں کو بھی جنم دیتا ہے۔ بعض ماہرین یہ خدشہ بھی ظاہر کرتے ہیں کہ ٹیکنالوجی پر مکمل انحصار روایتی مطالعہ، تخلیقی سوچ اور کتاب بینی کے ذوق کو کمزور کر سکتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ تعلیم میں ٹیکنالوجی کو ایک مؤثر ذریعہ کے طور پر استعمال کیا جائے، مقصد کے طور پر نہیں۔               مستقبل کے تعلیمی نقشے پر نظر ڈالی جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ آنے والے وقت میں ورچوئل ریئلٹی اور آگمینٹڈ ریئلٹی سیکھنے کے تجربات کو اور زیادہ حقیقی اور مفید بنائیں گی۔ طلبہ خلائی اسٹیشنوں، تاریخی مقامات اور سائنسی تجربہ گاہوں کے مجازی دورے کر سکیں گے۔ مگر اس سب ترقی کے باوجود ایک حقیقت اپنی جگہ قائم رہے گی کہ استاد کی اہمیت اور رہنمائی کا کوئی متبادل نہیں ہے۔ ٹیکنالوجی علم تک راستہ فراہم کر سکتی ہے، لیکن علم کے اخلاقی، انسانی اور جذباتی پہلوؤں کو وہ قوت صرف استاد کی شخصیت ہی دے سکتی ہے۔

                یوں کہا جا سکتا ہے کہ جدید ٹیکنالوجی نے تعلیم کو وہ پر دے دیے ہیں جن سے علم کی پرواز پہلے سے کہیں آگے تک ممکن ہو گئی ہے۔ اب سیکھنے کا سفر ایک بند دروازہ نہیں بلکہ پوری دنیا کی طرف کھلتی کھڑکی بن چکا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کھڑکی سے آنے والی روشنی سب تک یکساں پہنچے، تاکہ ٹیکنالوجی ایک سہولت ہونے کے ساتھ ساتھ معاشرتی ترقی کا ذریعہ بھی بن سکے۔ اگر انسان نے توازن برقرار رکھا تو علم کی یہ ڈیجیٹل روشنی آنے والی نسلوں کے ذہن روشن کرتی رہے گی۔



























فیچر نویسی  : 

مویشی پالن میں کمی اور اس کے سماج پر اثرات 

جواب : ممبئی (پی۔ٹی۔آئی) : 

دیہی زندگی کی پہچان صدیوں تک مویشی پالَن رہی ہے۔ گاؤں کے صحن میں بندھی گائے، دودھ کی بالٹی کے گرد بیٹھی عورتیں، بیل گاڑی کی آہٹ، بکریوں کی ممیاتی آوازیں اور کھیتوں کے قریب چراگاہوں کا ہرا منظر صرف تصویر نہیں تھا بلکہ کسان کی معیشت، اس کی ثقافت اور اس کے وجود کا حصہ تھا۔ لیکن اب یہ منظر تیزی سے بدل رہا ہے۔ مویشی پالَن میں وہ کمی واقع ہو رہی ہے جس کے اثرات خاموشی سے دیہی معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رہے ہیں۔


             کھیت آج بھی موجود ہیں مگر ان کے قریب بیل کم دکھائی دیتے ہیں۔ زمین وہی ہے مگر اس پر چلنے والی مشینیں بدل گئی ہیں۔ ٹریکٹر نے ہل سے، اور جدید زرعی اوزاروں نے بیل گاڑی سے جگہ چھین لی ہے۔ کسان اب بیل کے بجائے ڈیزل اور بجلی پر زیادہ انحصار کرتا ہے۔ اس تبدیلی نے محنت ضرور کم کی ہے مگر اس کے ساتھ مویشی پالَن کی ضرورت بھی گھٹتی چلی گئی ہے۔           دوسری طرف چراگاہیں چھوٹی ہو گئیں، چارہ مہنگا ہو گیا اور جانوروں کی دیکھ بھال آج کے معاشی دباؤ میں پہلے جیسی ممکن نہیں رہی۔

               مویشی پالَن میں کمی نے دیہی آمدنی کے اہم سرچشموں کو متاثر کیا ہے۔ دودھ اور اس سے تیار ہونے والے گھی، دہی اور مکھن نے جہاں غذائیت فراہم کی، وہیں ان مصنوعات کی فروخت نے ہزاروں خاندانوں کا چولہا جلایا۔ آج صورت حال یہ ہے کہ بہت سے گھرانے بازار سے دودھ خریدنے پر مجبور ہیں۔ بچے قدرتی غذائیت سے محروم ہو رہے ہیں اور خواتین کی کیلشیم کی ضرورت بھی مناسب طور پر پوری نہیں ہو پاتی۔ خوراک کے اس غیر توازن  نے صحت کے مسائل کو بڑھا دیا ہے۔

             مویشی صرف دودھ کا ذریعہ نہیں تھے بلکہ گوبر بھی کسان کے لیے خزانہ تھا۔ اس سے کھیتوں کو وہ نامیاتی غذا ملتی تھی جو کیمیکل کھادیں کبھی پوری نہیں کر سکتیں۔ بایو گیس کے چولہے دیہات میں ایندھن کی بچت کا ذریعہ بنتے تھے، مگر جانور کم ہونے سے یہ نظام بھی سکڑ رہا ہے۔ اب دیہی زمینیں زیادہ تر کیمیائی کھادوں پر منحصر ہیں، جس سے مٹی کی زرخیزی اور فصل کی طویل مدتی صحت پر سوال اٹھ رہے ہیں۔

              مویشی پالَن میں کمی صرف معاشی واقعہ نہیں بلکہ تہذیبی تبدیلی بھی ہے۔ دیہات کے میلوں میں بیل گاڑی کی دوڑ، دودھ بیچنے کے لیے صبح سویرے گاؤں کے دروازے پر قطاریں، اور چرواہوں کی آوازیں ایک اجتماعی ثقافتی ورثہ تھیں۔ اب وہ روایات دھیرے دھیرے یادوں میں تبدیل ہو رہی ہیں۔ لوگوں کے طرزِ زندگی میں وہ ربط، وہ معاشرتی تعلقات کم ہوتے دکھائی دیتے ہیں جو صدیوں سے مویشی پالَن نے قائم کر رکھے تھے۔

             اگرچہ یہ تبدیلی مکمل طور پر منفی نہیں، مگر اس سے پیدا ہونے والے مسائل کے حل کی ضرورت بڑھ گئی ہے۔ دیہی معیشت کو سہارا دینے کے لیے جدید ڈیری تربیت، مناسب ویکسینیشن، چارہ افزائش کے منصوبے، اور دودھ کی منصفانہ قیمت کی ضمانت جیسے اقدامات ناگزیر ہیں۔ بکری اور بھیڑ جیسے نسبتاً کم خرچ مویشی بھی نئی امکانات پیدا کر سکتے ہیں، بشرطیکہ کسانوں کو بروقت رہنمائی اور حکومتی تعاون میسر ہو۔

             دیہات کی پہچان صرف کھیت نہیں، وہ زندگی ہے جو کھلی فضا میں چلتی سانسوں اور مویشیوں کی موجودگی سے جڑی تھی۔ اگر اس تغیر کو سمجھ کر مناسب حکمت عملی اختیار نہ کی گئی تو آنے والی نسلیں شاید صرف تصویروں میں وہ منظر دیکھ پائیں گی جو کبھی گاؤں کی زندگی کا دل تھا۔


فیچر نویسی  :

ایک کسان کا پانی ڈھو کر سیکڑوں درختوں کی آبیاری کرنا اور انہیں زندہ رکھنا


(بالاپور، ضلع آکولہ — ایک زمینی حقیقت پر مبنی فیچر رپورٹ) :  

              بالاپور تحصیل کے دیہی علاقے میں، جہاں پانی کی قلت روزمرّہ زندگی کا حصہ بن چکی ہے، ایک کسان ر اجو مہادے نے اپنی مستقل مزاجی اور محنت سے ماحول دوستی کی ایک خاموش مثال قائم کی ہے۔ خشک موسم، کمزور بارشیں اور کمیاب آبی ذخائر کے درمیان ر اجو کا روزانہ پانی ڈھو کر درختوں کو زندہ رکھنا اس علاقے کی فضا میں ایک مختلف رنگ بھرتا ہے۔

            راجو مہادے، عمر کے پچاس کے قریب، ایک معمولی کسان ہے۔ اس کے پاس محدود وسائل ہیں مگر اس کے ارادے غیر معمولی ہیں۔ اس نے اپنی زمین کے اردگرد درخت لگانا کئی سال پہلے شروع کیا۔ اس وقت شاید کسی نے اس کی طرف خصوصی توجہ نہیں دی، مگر آج اس کی محنت کا نتیجہ ہر آنے جانے والے کو صاف نظر آتا ہے۔

           ہر صبح وہ اپنے کندھوں پر پانی کا بڑا برتن رکھ کر قریبی کنویں، تالاب یا پانی کے کسی دستیاب مقام تک جاتا ہے۔ وہیں سے پانی بھر کر وہ ان پودوں تک پہنچاتا ہے جنہیں وہ اپنے بچوں کی طرح پالتا ہے۔ یہ عمل آسان نہیں—گرمیوں میں چلچلاتی دھوپ ہو یا سردیوں میں کاٹتی ہوئی ہوا، ر اجو کا معمول کبھی نہیں ٹوٹتا۔ وہ ایک ایک درخت کے قریب بیٹھ کر مٹی کو چیک کرتا ہے اور اندازہ لگاتا ہے کہ کتنی مقدار میں پانی درکار ہے۔

             گاؤں کے بزرگ بتاتے ہیں کہ کچھ عرصہ پہلے تک اس جگہ پر سوکھی زمین تھی۔ ر اجو نے جب پودے لگائے تو کئی لوگ اس کے فیصلے پر ہنستے تھے۔ مگر وقت گزرتا گیا اور یہی پودے اب تناور درختوں کا روپ لے رہے ہیں۔ ان درختوں نے آس پاس کی فضا کو بدلا ہے۔ اب یہاں پرندوں کی آوازیں سنائی دیتی ہیں، زمین کی نمی بہتر محسوس ہوتی ہے، اور تیز دھوپ میں بھی اس علاقے کا سایہ قدرے ٹھنڈا لگتا ہے۔

                 راجو کی اس کوشش نے نہ صرف ماحول بلکہ لوگوں کے رویوں میں بھی تبدیلی پیدا کی ہے۔ کچھ نوجوان اس کے ساتھ شامل ہونے لگے ہیں۔ وہ گرمیوں میں اس کے ساتھ آبیاری میں ہاتھ بٹاتے ہیں، اور سردیوں میں نئے پودے لگانے کے منصوبے بناتے ہیں۔ مقامی لوگ اب اسے عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اس کے بارے میں کہتے ہیں کہ "اس نے اکیلے اپنی محنت سے گاؤں کے ماحول کو بدل دیا۔"

               راجو کے سامنے سب سے بڑی رکاوٹ پانی کی کمی ہے۔ وہ خود بھی یہ بات جانتا ہے کہ پانی کے بغیر درخت ایمبولیا کی طرح بیکار ہو جاتے ہیں۔ اسی لیے وہ دن میں کئی بار پانی بھرنے جاتا ہے۔ اس کی نیت ہے کہ اگر وہ سیکڑوں درختوں کو زندہ رکھ سکتا ہے تو آنے والی نسلوں کے لئے ایک صحت مند ماحول چھوڑ سکے گا۔

                راجو مہادے کی یہ کہانی ایک فرد کی کوشش کا وہ روشن پہلو ہے جو بتاتا ہے کہ ماحول کی حفاظت صرف بڑے منصوبوں یا سرکاری پروگراموں سے ہی ممکن نہیں۔ اگر ارادہ مضبوط ہو تو ایک کسان اپنی محدود سہولیات کے باوجود اپنے علاقے کے ماحول کو بدل سکتا ہے۔

             اس عمل نے ثابت کیا ہے کہ ہریالی صرف ایک نعمت نہیں بلکہ ایک ذمہ داری بھی ہے—اور اگر کوئی شخص اپنے حصے کی ذمہ داری نبھا لے تو ماحول خود اس کے ساتھ چل پڑتا ہے۔


فیچر نویسی:

بس اسٹینڈ کے پھیری والے اور ان کی نئی آواز — ’’بالاپور ہاکرز یونین‘‘ کا قیام

           بالاپور (ضلع آکولہ) کا مرکزی بس اسٹینڈ ہمیشہ سے رنگا رنگ آوازوں اور چھوٹے کاروبار کرنے والے پھیری والوں کی محنت سے زندہ رہا ہے۔ کبھی چائے کی بھاپ میں بسی خوشبو مسافروں کی تھکن اتارتی ہے، کبھی بھُنے چنے اور مونگ پھلی کی آواز ماحول کو چہکتا ہے، تو کہیں کھلونوں، رومال، موبائل چارجر یا چھوٹی موٹی چیزیں بیچنے والوں کی صدائیں گونجتی ہیں۔ برسوں سے یہ پھیری والے اس بس اسٹینڈ کی اصل رونق تھے، مگر خود ان کی زندگی میں غیر یقینی حالات ہمیشہ سایہ فگن رہے۔
                 اسی پس منظر میں حال ہی میں ’’بالاپور ہاکرز یونین‘‘ نامی ایک تنظیم قائم کی گئی، جس نے پھیری والوں کو پہلی بار ایک اجتماعی پہچان اور آواز فراہم کی ہے۔ پھیری والوں کے کام کی نوعیت ایسی ہے کہ وہ روزانہ روزگار کی تلاش میں غیر محفوظ ماحول کا سامنا کرتے رہے۔ کبھی باقاعدہ جگہ نہ ملنے کا مسئلہ، کبھی بارش، دھوپ یا پولیس کی کارروائیاں، اور کبھی دکانداروں کی شکایت… ان سب نے مل کر ان کی زندگی کو مسلسل غیر مستحکم بنا رکھا تھا۔ روز کی کمائی پر گھروں کا چولہا جلانے والوں کے لیے یہ غیر یقینی حالات ہمیشہ تشویش کا باعث تھے۔
               ’’بالاپور ہاکرز یونین‘‘ نے انہی مشکلات کو سامنے رکھتے ہوئے ایک منظم پلیٹ فارم قائم کیا ہے، جہاں پھیری والے اپنے مسائل بیان کر سکیں، انتظامیہ سے رابطہ بہتر بنائیں اور بس اسٹینڈ کے اندر منصفانہ طریقے سے کام کرنے کے لیے جگہ کا مطالبہ پیش کر سکیں۔ تنظیم نے اپنے ابتدائی اجلاس میں یہ طے کیا کہ پھیری والے صفائی کا بہتر انتظام رکھیں گے، ریٹ واضح دکھائیں گے، مسافروں سے شائستگی سے پیش آئیں گے اور اپنی جگہ مخصوص حدود میں رکھیں گے، تاکہ پورا ماحول ترتیب سے رہے۔
              بالاپور کی شہری انتظامیہ نے اس تنظیم کے قیام کا خیر مقدم تو کیا ہے، لیکن ساتھ ہی اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ پھیری والے اصول و ضوابط کی پابندی کریں۔ انتظامیہ نے اشارہ دیا ہے کہ اگر صورتحال منظم رہی تو پھیری والوں کو مستقل اور مناسب زون بھی فراہم کیے جا سکتے ہیں، جس سے ٹریفک اور مسافروں کی آمدورفت متاثر نہ ہو۔
                 بالاپور کے بس اسٹینڈ کا منظر اب آہستہ آہستہ ایک نئی سمت کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ایک طرف مسافروں کی سہولت، دوسری طرف پھیری والوں کی محفوظ روزی—ان دونوں کے درمیان ایک نیا توازن جنم لے رہا ہے۔ ’’بالاپور ہاکرز یونین‘‘ کا قیام تبدیلی کی اسی لہر کا پہلا قدم ہے، جو نہ صرف پھیری والوں کی زندگی کو منظم کرے گا بلکہ شہر کے بس اسٹینڈ کی فضا کو بھی زیادہ خوشگوار اور ہم آہنگ بنائے گا۔

فیچر نویسی:

معمر ہونے کے باوجود قلی نے روزے رکھے

   آکولہ (نامہ نگار) :  بالاپور ضلع آکولہ کی ایک تنگ و تاریک گلی میں واقع پرانے طرز کے نیم شکستہ مکان کے باہر ہر سحر ایک مانوس سی آواز گونجتی ہے۔ لکڑی کے دروازے پر آہستہ سے پڑنے والی دستک، اور پھر ایک نحیف مگر پُرسکون لہجہ—
“روزہ دار کو جگانا خیر ہے بیٹا۔”
یہ آواز حاجی عبدالوارث کی ہے، جو عمر کی ضعفی کے باوجود اس سال بھی پورے اہتمام کے ساتھ روزے رکھتے ہیں۔ ان کے دبے قدموں کی چاپ اور چہرے کی جھریوں میں چھپے وقار نے محلہ بھر کو ان کا گرویدہ بنا رکھا ہے۔
            اسی محلے میں اکثر لوگ حیرت سے کہتے ہیں کہ سو برس کے قریب پہنچنے والا یہ شخص آخر اتنی مشقت کیسے برداشت کر لیتا ہے؟ مگر عبدالوارث کا جواب ہمیشہ ایک ہی ہوتا ہے:
“روزہ جسم سے زیادہ نیت اور دل کی طاقت مانگتا ہے۔ عمر آڑے نہیں آتی، اگر جذبہ جاگ رہا ہو۔”
            ان کی روز مرہ زندگی نہایت سادگی میں گزرتی ہے۔ سحری میں چند لقمے، ایک گلاس پانی اور معمولی سی کھجور ان کا کل آسرہ۔ لیکن اس معمولی خوراک کے باوجود وہ امتحان گاہِ صبر یعنی روزے کو بھرپور طریقے سے ادا کرتے ہیں۔ گرمی کی تپش ہو یا بڑھاپے کی تھکن—ہاجی عبدالوارث کبھی تذبذب کا شکار نہیں ہوئے۔
            بالاپور کے لوگ انہیں محض ایک قلی نہیں، بلکہ حوصلے کی علامت سمجھتے ہیں۔ ریلوے اسٹیشن پر کبھی کندھوں پر سامان اٹھانے والا یہ شخص آج بھی وقتاً فوقتاً اسٹیشن کے احاطے میں دکھائی دیتا ہے۔ ہاتھ میں چھڑی، پیروں میں لرزش، مگر چہرے پر وہی پرانی مسکراہٹ—
“بیٹا، مزدوری نے مجھے جینا سکھایا ہے، اور روزے نے مجھے صبر۔”
           رمضان کے دنوں میں اکثر نوجوان ان کے پاس بیٹھ کر ان کی باتیں سنتے ہیں۔ ان کے تجربات، پرانی یادوں اور ایمان افروز جملوں میں ایک عجیب گرمی ہوتی ہے، جیسے بڑھاپے کی دھیمی چال میں بھی کوئی روشن پیغام چھپا ہوا ہو۔ بہت سے لوگ ان سے حوصلہ پاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر عبدالوارث جیسا معمر شخص روزہ رکھ سکتا ہے تو ہم کس بات کے محتاج ہیں؟
            افطار کے وقت محلے کے چند بچے ان کے دروازے پر دستک دیتے ہیں۔ وہ ان کے لیے دروازہ کھولتے ہیں تو چہرے پر ایک مطمئن مسکراہٹ پھیل جاتی ہے۔ چند کھجوریں، ایک گلاس پانی اور دل کی گہرائی سے نکلتی ایک دعا—یہی ان کا روزہ افطار ہوتا ہے۔
           حاجی عبدالوارث کی کہانی بڑھاپے میں عبادت کی استقامت کا ایک خوبصورت استعارہ ہے۔ یہ محض ایک معمر قلی کی روزہ داری نہیں، بلکہ انسان کے اندر موجود اس قوت کی تصویر ہے جو عمر، کمزوری اور مشکلات پر غالب آ سکتی ہے۔ بالاپور کی گلیوں میں آج بھی ان کے قدموں کی چاپ سنائی دیتی ہے—
ایسی چھاپ جو بتاتی ہے کہ ایمان کی تازگی کے آگے عمر کا بوجھ کوئی معنی نہیں رکھتا۔

فیچر نویسی 

“زمین کی آواز — حالیہ کسان تحریک کا سچ“

نومبر ( نئی دہلی ) : نومبر کی سرد ہواؤں میں جب دھوپ سوکھے کھیتوں پر نرم سنہری چادر بچھا رہی تھی، ملک کی سڑکیں ایک مرتبہ پھر کسانوں کے قدموں کی چاپ سے گونج اٹھیں۔ یہ تحریک کسی ایک مطالبے یا ایک خطے تک محدود نہ تھی بلکہ برسوں سے جمع ہوتے مسائل، معاشی دباؤ اور زرعی پالیسیوں میں پائے جانے والے تضادات کا ایک طویل سلسلہ تھا جس کا فطری ردعمل عوام کے سامنے ’’کسان تحریک‘‘ کی صورت نمودار ہوا۔ اس بار کسان نہ غصے سے نکلے تھے، نہ ہی حکومت سے ٹکراؤ کے کسی رومانوی تصور میں؛ وہ صرف اس بنیادی سوال کے جواب کے متلاشی تھے کہ زمین کو زندہ رکھنے والا خود کب تک زندہ رہ پائے گا؟

ٹریکٹروں، بیل گاڑیوں، موٹر سائیکلوں اور پیدل مارچ کرتے نوجوانوں، خواتین، بزرگ کسانوں کے چہروں پر تھکن ضرور تھی، مگر حوصلہ ماند نہ تھا۔ ان کے ہاتھوں میں پلے کارڈز اور بینروں پر درج سادہ مگر گہرے جملے موجودہ نظامِ زرعیات کی حقیقت بیان کرتے دکھائی دیتے تھے— “کاشتکار کماتا ہے، مگر منڈی میں کوئی اور جیتتا ہے“، “کھیت سے تھالی تک، کہیں نہ کہیں ہمارا حصہ غائب ہو جاتا ہے“۔ یہ جملے احتجاج سے زیادہ صدائے دل معلوم ہوتے تھے۔
اس تحریک کی سب سے بڑی خصوصیت اس کا پُرامن ہوتے ہوئے بھی مضبوط انداز تھا۔ کسانوں نے شہروں کی طرف بڑھتے قافلوں میں نظم و ضبط کا ایک ایسا نمونہ پیش کیا جو خود اپنی مثال ہے۔ ایک جانب بزرگ کسان اپنی روایت کے مطابق لکڑی کی گدڑی اور کپڑے کی پگڑی میں موجود تھے، تو دوسری جانب نوجوان کسان سوشل میڈیا پر لائیو اسٹریم کرتے ہوئے ملک بھر کو لمحہ بہ لمحہ آگاہ کر رہے تھے۔ یوں ایک طرف روایتی مزاحمت کا رنگ تھا، دوسری طرف جدید ذرائع کا سہارا—اور دونوں نے مل کر تحریک کو ہمہ جہت بنا دیا۔
کئی جگہوں پر شہریوں نے کسانوں کے لیے چائے، پانی اور کھانا تقسیم کیا، کہیں دکان داروں نے سامان کے نرخ گھٹا دیے، اور بعض مقامات پر طلبہ نے خود بنائے ہوئے پوسٹر پکڑ کر ان کا ساتھ دیا۔ اس نے احتجاج کو صرف کسانوں کی تحریک نہیں رہنے دیا بلکہ سماج کے مختلف طبقوں کی یکجہتی نے اسے عوامی رنگ عطا کر دیا۔ یہ منظر اس بات کی علامت تھا کہ کسان کا مسئلہ محض فصل کا مسئلہ نہیں، ملک کی اقتصادی اور معاشرتی صحت کا مسئلہ ہے۔
تاہم، ہر تحریک کی طرح اس تحریک میں بھی مشکلات اور تنازعات کم نہ تھے۔ کہیں سڑکیں بند ہونے سے آمد و رفت متاثر ہوئی، کہیں مذاکرات کے ناکام ہونے سے مایوسی پھیلی، اور کہیں سیاسی زاویے تحریک کی اصل روح کو دھندلانے لگے۔ مگر اس سب کے باوجود کسانوں کا بنیادی مطالبہ جوں کا توں قائم رہا— انہیں وہ احترام اور معاشی تحفظ ملے جس کے وہ حقدار ہیں۔
کسی بزرگ کسان نے ایک رپورٹ کے دوران بڑی سادگی سے کہا:
“اگر بارش وقت پر ہو جائے تو کہتے ہیں کسان خوش نصیب ہے، اگر بارش نہ ہو تو کہتے ہیں کسان بے بس ہے۔ مگر کوئی یہ نہیں دیکھتا کہ ہر حال میں فصل کے پیچھے ہماری جان لگی ہوتی ہے۔“
یہ ایک جملہ صرف کسانوں کی نہیں بلکہ اس تحریک کی پوری داستان بیان کرتا ہے۔ آج جب ملک ترقی، معیشت اور ٹیکنالوجی کی بات کرتا ہے، تو سب سے پہلے اس بنیاد کو مضبوط کرنا ضروری ہے جس پر معیشت کھڑی ہے—اور یہ بنیاد کسان ہے، اس کی زندگی ہے، اس کی زمین ہے۔
حالیہ کسان تحریک صرف احتجاج نہیں؛ یہ ایک آئینہ ہے جو ہمیں ہمارے سماجی، معاشی اور پالیسیاتی ڈھانچے کی خامیاں دکھاتا ہے۔ یہ یاد دہانی ہے کہ ملک کی خوشحالی کا پہلا قدم کسان کے قدموں سے جڑا ہوا ہے۔ جب تک کھیت محفوظ نہیں، تھالی مطمئن نہیں ہو سکتی۔ اور جب تک کسان خوشحال نہیں، ملک ترقی یافتہ نہیں کہلا سکتا۔


7 comments:

  1. بہت بہت شکریہ سر اس معلومات کو ہم تک پہنچانے کے لیے

    ReplyDelete
  2. Sir teacher likhne k tariqa... Kaisa likhna hai wo b bataiye plz

    ReplyDelete
  3. Jazakallah sir

    ReplyDelete
  4. Jajakallah khair sir apki mehnat hamare mustaqbil ki kamyabi ka zariya hai🤍💯

    ReplyDelete

علامہ اقبال کا پیغام

  رِندانِ فرانسیس کا میخانہ سلامت پُر ہے مئے گُلرنگ سے ہر شیشہ حلَب کا ہے خاکِ فلسطیں پہ یہودی کا اگر حق ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہلِ عَر...