XI CLASS URDU

Followers

About Me

My photo
Manora ,District :Washim 444404, Maharashtra , India

Friday, 28 July 2023

ذاتی رائے لکھنے کا طریقہ



         ذاتی رائے لکھنے کا طریقہ 

1) اس سرگرمی کا جواب اقتباس میں نہیں ملتا

2) طالب علم کو اپنے تجربے کے مطابق دل سے جواب دینا ہوتا ہے۔ اس سرگرمی میں کسی موضوع سے متعلق طالب علم کا کیا  خیال ہے اس کی جانچ کی جاتی ہے

3) طالب علم مناسب محاوروں ، 

کہاوتوں، 

ضرب المثل اور 

مشہور اقوال کا بھی استعمال کر سکتا ہے

4) موضوع کے مطابق کسی شعر کا استعمال کرکے   جواب کو دلکش و موثر بنانا  چاہیے

5) طالب علم موضوع کے مطابق

 قرآن کی کسی آیت، 

حدیث  یا

 کسی  قصے کا تذکرہ بھی کر سکتا ہے

6) جواب میں موجود اہم نکات،جملوں اور فقروں کو خط کشیدہ کریں










👈ای کچرے سے پیدا ہونے والے مسائل پر اپنی رائے پیش کیجئے    ( یا)




















👈 " لباس کسی شخص کی مکمل شناخت نہیں ہے " ذاتی رائے لکھنے 

جواب :



👈سفر وسیلئہ ظفر ہوتا ہے ذاتی رائے دیجیے ۔

جواب :



"جدید دور میں پیغام رسانی بہت آسان ہے" اس بارے میں اپنا خیال پیش کیجئے 

جواب : جدید دور میں پیغام رسانی پہلے سے کہیں زیادہ آسان ہو چکی ہے۔ ٹیکنالوجی نے فاصلاتی رابطوں کو بے حد مؤثر بنا دیا ہے، جس کی بدولت دنیا کے کسی بھی کونے میں موجود افراد چند سیکنڈ میں ایک دوسرے سے جُڑ سکتے ہیں۔ اب ہم نہ صرف الفاظ بلکہ تصاویر، ویڈیوز اور وائس میسجز کے ذریعے بھی بات چیت کر سکتے ہیں، جس نے زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کیا ہے، چاہے وہ ذاتی تعلقات ہوں، تعلیمی نظام ہو یا کاروباری معاملات۔

          ماضی میں جب کوئی شخص بیرون ملک جاتا تھا تو اسے اپنے گھر والوں سے رابطہ کرنے کے لیے مہینوں انتظار کرنا پڑتا تھا۔ خط لکھنا اور اس کا جواب آنا ایک طویل عمل ہوتا تھا۔ لیکن آج، ویڈیو کالز کی بدولت لوگ روزانہ اپنے پیاروں سے بات کر سکتے ہیں۔ اگر کوئی ہندوستانی مزدور سعودی عرب میں کام کر رہا ہو تو وہ ہر روز واٹس ایپ یا میسنجر کے ذریعے اپنی فیملی سے جُڑا رہ سکتا ہے، جو پہلے ممکن نہ تھا۔

             تعلیم کے شعبے میں بھی پیغام رسانی کے جدید ذرائع نے انقلاب برپا کر دیا ہے۔ کرونا وبا کے دوران، جب روایتی تعلیمی ادارے بند ہوگئے، تو آن لائن کلاسز، زوم میٹنگز اور ای لرننگ پلیٹ فارمز کے ذریعے تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا گیا۔ ہمارے ملک عزیز کے دیہات میں ایسے کئی طلبہ تھے جو پہلے معیاری تعلیم حاصل کرنے سے محروم تھے، لیکن جدید ٹیکنالوجی نے انہیں آن لائن لیکچرز اور ڈیجیٹل لائبریریوں تک رسائی دی۔

          کاروباری دنیا میں بھی پیغام رسانی کے جدید ذرائع نے زبردست تبدیلیاں کی ہیں۔ پہلے کاروباری سودے کرنے کے لیے طویل میٹنگز اور سفر درکار ہوتا تھا، مگر اب زوم، گوگل میٹ اور ای میل کے ذریعے بین الاقوامی سطح پر کاروباری معاملات فوری طور پر طے کیے جا سکتے ہیں۔ ایک ہندوستانی برانڈ دبئی میں اپنے کلائنٹس کے ساتھ ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے ڈیل فائنل کر سکتا ہے، جس کے لیے پہلے طویل سفر اور اخراجات برداشت کرنے پڑتے تھے۔

            پیغام رسانی کی طاقت کا ایک اہم تاریخی واقعہ "عرب بہار" ہے۔ 2010 میں، جب تیونس میں ایک نوجوان محمد بوعزیزی نے بے روزگاری اور سرکاری ناانصافی کے خلاف خودسوزی کی، تو اس خبر نے سوشل میڈیا کے ذریعے پوری عرب دنیا میں انقلابی لہریں پیدا کر دیں۔ فیس بک، ٹویٹر اور یوٹیوب کے ذریعے یہ احتجاج مصر، لیبیا اور دیگر ممالک تک پھیل گیا، جس کے نتیجے میں کئی حکومتیں بدل گئیں۔ یہ اس بات کی مثال ہے کہ پیغام رسانی کے جدید ذرائع کس طرح دنیا کو تبدیل کر سکتے ہیں۔

             یہ واضح ہے کہ جدید پیغام رسانی نے دنیا کو قریب کر دیا ہے اور زندگی کے ہر پہلو میں آسانی پیدا کی ہے۔ تاہم، اس کے غلط استعمال، جعلی خبروں اور سوشل میڈیا کے منفی اثرات سے بھی محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم اس سہولت کا دانشمندانہ اور مثبت استعمال کریں، تو یہ ترقی اور خوشحالی کا ایک بہترین ذریعہ ثابت ہو سکتی ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے ؃

بدلتی ہوئی دنیا کی یہ برق رفتاری

کبھی رحمتِ یزداں، کبھی زحمتِ دوراں


سوال: ہمیں استاد کی عزت و توقیر کرنی چاہیے۔ذاتی رائے دیجئے 

جواب: 

              استاد کی عزت و توقیر محض ایک اخلاقی فریضہ نہیں بلکہ انسان کی فکری اور عملی تربیت کا بنیادی ستون ہے۔ میرے نزدیک استاد وہ چراغ ہے جو خود جل کر راستہ روشن کرتا ہے۔ زندگی کے نشیب و فراز میں اکثر لوگ بدل جاتے ہیں، مگر ایک استاد کی دی ہوئی تربیت انسان کے باطن میں ایسے رچ بس جاتی ہے کہ وقت گزرنے کے باوجود اس کی خوشبو باقی رہتی ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے “جس نے ایک حرف سکھایا وہ میرا محسن ہوا” — یہ محاورہ دراصل اس رشتے کی عظمت کا خلاصہ ہے۔

          قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے علم اور اہلِ علم کے مقام کو یوں بلند کیا:

"یَرْفَعِ اللّٰہُ الَّذِیْنَ آمَنُوا مِنْکُمْ وَالَّذِیْنَ أُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ"

یعنی اللہ اہلِ ایمان اور علم والوں کو بلند درجے عطا کرتا ہے۔ یہ اشارہ اس طرف بھی ہے کہ جو شخص علم بانٹتا ہے، وہ دراصل معاشرے کو اٹھاتا ہے۔

               نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "میں تم میں سے اس شخص سے زیادہ قریب ہوں جو ادب و احترام کرتا ہے"۔ اس حدیث میں صرف تعظیم کی فضیلت ہی نہیں بلکہ وہ تہذیبی روح بھی ہے جو استاد اور شاگرد کے رشتے کو مضبوط کرتی ہے۔


استاد کی عزت و توقیر کے متعلق کسی شاعر نے کیا خوب بیان کیا ہے:

“تو نے پوچھا تھا کہ استاد کا رتبہ کیا ہے

دل پہ شاگرد کے، کردار پہ مہر استاد”


ایک محاورہ اکثر استعمال کیا جاتا ہے کہ “ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں”۔ اگر شاگرد استاد کا ادب نہیں کرتا تو یہ ایسے ہے جیسے پیڑ اپنی جڑوں سے رشتہ توڑ دے—پھر نہ سایہ رہتا ہے نہ پھل۔

               گاؤں کے بزرگوں سے سنا ہوا ایک واقعہ ہمیشہ ذہن میں تازہ رہتا ہے۔ ایک نوجوان اپنی محنت اور ذہانت کے باوجود بار بار ناکام ہوتا رہا۔ اس کے والد نے پوچھا تو اس نے بتایا کہ میں استاد سے سخت لہجے میں بات کر بیٹھا تھا۔ والد نے فوراً کہا: “بیٹا، استاد کا دل ٹوٹ جائے تو نصیب بھی روٹھ جاتا ہے۔” نوجوان نے معافی مانگی، استاد نے دل سے دعا دی، اور اسی سال اس کی زندگی کا رخ بدل گیا۔ یہ واقعہ خواہ فرضی ہو، مگر ہمارے معاشرے کی صدیوں پرانی دانش کا خلاصہ ہے۔


استاد کی عزت دراصل اپنے مستقبل کی عزت ہے۔ جو شاگرد اپنے استاد کے سامنے جھکنا جانتا ہے، دنیا ایک دن اس کے سامنے جھکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ضرب المثل مشہور ہے:

“گُڑ کھاؤ، گُڑ جیسی بات کرو—استاد کا نمک کھاؤ تو اس کی قدر بھی کرو”۔

           میرے نزدیک استاد عزت کا نہیں، محبت کا مستحق ہے۔ اور محبت وہی دلوں میں اترتی ہے جہاں احترام کا چراغ روشن ہوتا ہے۔

1 comment:

علامہ اقبال کا پیغام

  رِندانِ فرانسیس کا میخانہ سلامت پُر ہے مئے گُلرنگ سے ہر شیشہ حلَب کا ہے خاکِ فلسطیں پہ یہودی کا اگر حق ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہلِ عَر...