رو میں ہے رخش عمر کہاں
دیکھے تھمے
نے ہاتھ باگ پہ ہے نہ پا ہے رکاب می
مرزا غالب کا یہ شعر زندگی کی بے ثباتی اور آخری عمر کی بے بسی اور ضعف کو بیان کرتا ہے۔
تشریح :
نیالفظ
رخش = گھوڑا : رخش عمر = عمر کا گھوڑا
مصرع اولی میں "رخش عمر" (زندگی کا گھوڑا) وقت کی رفتار کو ظاہر کرتا ہے۔ شاعر کہہ رہا ہے کہ زندگی کا سفر اتنا تیز ہے کہ انسان کو اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ یہ کہاں جا رہا ہے۔ یہ زندگی کی بے یقینی اور تیز رفتاری کو بیان کرتا ہے۔
*نئے الفاظ
باگ = گھوڑے کی لگام
رکاب = زین جس پر پیر رکھ کر گھوڑے پر بیٹھا جاتا ہے
مصرع ثانی میں شاعر کہتا ہے کہ نہ تو ہمارے ہاتھوں میں زندگی کی لگام (باگ) ہے اور نہ ہی ہمارے پاؤں رکاب میں ہیں، یعنی انسان اپنی زندگی پر کوئی اختیار نہیں رکھتا۔ یہ ایک قسم کا شکوہ ہے کہ زندگی ہمارے قابو میں نہیں اور ہم محض اس کے بہاؤ میں بہے جا رہے ہیں۔
No comments:
Post a Comment