اردو زبان کو پارلیمانی زبان کا درجہ دیا جانا
بھارت نے اردو کو پارلیمانی زبان کا درجہ اس کی تاریخی، ثقافتی، اور سماجی اہمیت کی وجہ سے دیا ہے۔ اس کی چند بنیادی وجوہات درج ذیل ہیں:
1. تاریخی اور ثقافتی پس منظر
اردو بھارت کی ایک قدیم زبان ہے، جو صدیوں سے وہاں بولی اور لکھی جاتی رہی ہے۔ مغلیہ دور میں یہ دربار کی اہم زبان رہی اور آزادی کی تحریک میں بھی اس کا نمایاں کردار تھا۔
2. آبادی اور بولنے والوں کی تعداد
بھارت میں لاکھوں لوگ اردو بولتے اور سمجھتے ہیں، خاص طور پر اتر پردیش، بہار، دہلی، تلنگانہ،مہاراشٹر جموں کشمیر راجستھان اور مغربی بنگال جیسے علاقوں میں اردو کو سرکاری طور پر تسلیم کرنا ایک بڑی آبادی کی زبان کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے۔ مزید برآں کہ یہ امر جگ ظاہر بھی ہے کہ اکثر و بیشتر اردو زبان پر ہندی زبان کا ملمع چڑھایا جاتا ہے۔ در حقیقت وہ اردو زبان ہی ہوتی ہے مگر بول چال کی زبان کو ہندی کے دائرے میں شمار کیا جاتا ہے۔ ہندی کو علمی سطح پر چوتھے نمبر کی زبان بنانے میں اردو کا بہت بڑا ساتھ ہے۔ بھارت میں اردو زبان کی گفتگو کو ہندی زبان گردانہ جاتا ہے
3. آئینی حیثیت اور اقلیتی حقوق
بھارتی آئین کی آرٹیکل 29 اور 30 اقلیتوں کو اپنی زبان، ثقافت، اور تعلیمی ادارے قائم کرنے کا حق دیتا ہے۔ اردو چونکہ بھارتی مسلمانوں اور دیگر کمیونٹیز کی ایک اہم زبان ہے، اس لیے اسے پارلیمانی زبانوں میں شامل کیا گیا۔
4. کثیر لسانی پالیسی
بھارت میں کئی زبانیں پارلیمانی زبانوں میں شامل کی گئی ہیں تاکہ مختلف لسانی گروہوں کو نمائندگی دی جا سکے۔ اردو کو اس فہرست میں شامل کرنا اسی پالیسی کا حصہ ہے۔
5. اردو کا ادبی اور تعلیمی کردار
اردو زبان کا ایک مضبوط ادبی ورثہ ہے، اور یہ بھارت کی مختلف یونیورسٹیوں میں پڑھائی جاتی ہے۔ حکومت اس زبان کی ترویج کے لیے مختلف اقدامات بھی کرتی ہے، جیسے کہ اردو اکادمیوں کا قیام۔
6) اردو کا قومی زبانوں کے گروپ میں شامل ہونا :
جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ بھارت کی کوئی قومی زبان (راشٹریہ بھاشا) نہیں ہے۔ بھارت میں ۲۲ زبانوں کو آئینی زبان (constitutional languages ) کا درجہ حاصل ہے ۔ان 22 زبانوں میں اردو زبان بھی شامل ہے
قصہ کوتاہ کہ بھارت نے اردو کو سیاسی، ثقافتی، اور لسانی وجوہات کی بنیاد پر پارلیمانی زبان کا درجہ دیا، تاکہ اس کے بولنے والے طبقے کو مناسب نمائندگی اور حقوق دیے جا سکیں۔