XI CLASS URDU

Followers

About Me

My photo
Manora ,District :Washim 444404, Maharashtra , India

Tuesday, 25 November 2025

علامہ اقبال کا پیغام

 

رِندانِ فرانسیس کا میخانہ سلامت
پُر ہے مئے گُلرنگ سے ہر شیشہ حلَب کا
ہے خاکِ فلسطیں پہ یہودی کا اگر حق
ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہلِ عَرب کا
مقصد ہے مُلوکیّتِ انگلِیس کا کچھ اور
قصّہ نہیں نارنج کا یا شہد و رُطَب کا

الفاظ معانی :


(رند = لا مذہبی،  آزاد زندگی والے شرابی ، حلب = ملک شام کا ایک شہر، ہسپانیہ = اسپین، ملوکیت = حکومت، رطب : کھجور، نارنج = ایک پھل


نثری مطلب 


رِندانِ فرانس کا میخانہ سلامت رہے،

فرانس اس زمانہ میں ہر وقت خوشنما گلابی شراب سے بھرا رہتا ہے۔

(یعنی یورپ کی عیش پرست قومیں اپنی رنگ رلیوں اور خوشگزار زندگی میں مگن ہیں۔)


اور اگر یہودیوں کا فلسطین کی سرزمین پر حق مانا جاتا ہے،

تو پھر اسی اصول کے مطابق عربوں کا بھی اسپین (ہسپانیہ) پر حق ہونا چاہیے۔

(یعنی یورپ دوہرے معیار رکھتا ہے—یہودیوں کے تاریخی دعوے کو تو قبول کرتا ہے مگر عربوں کے عظیم ماضی اور اسپین پر صدیوں کی حکومت کو نظرانداز کرتا ہے۔)


انگلستان کی بادشاہت کے اصل مقاصد کچھ اور ہیں،

یہ معاملہ نارنج، شہد یا کھجور جیسے پھلوں کی ۵جارت نہیں ہے۔بلکہ ان کا مقصد سیاست میں حصہ لے کے طاقت حاصل کرنا ہے

(یعنی انگلستان کی سیاسی چالوں، قبضہ گیری اور سامراج کے پیچھے اصل مقصد صرف طاقت، سیاست اور مفادات ہیں—یہ کسی معمولی تجارتی اعتراض یا علاقائی بحث کا مسئلہ نہیں۔)


ادبی نثری مفہوم


فرانس کے آزاد خیال اور عیش پرست لوگوں کی سرزمین آج بھی اپنی رنگین محفلوں اور شراب خانوں سمیت پوری آب و تاب سے قائم ہے، جہاں ہر جام خوش رنگ مَے سے لبریز ہے۔

دوسری طرف دنیا عدالت اور حق کے نام پر عجیب پیمانے بنا رہی ہے—اگر محض تاریخی نسبت کی بنیاد پر یہودیوں کو فلسطین پر حق دار سمجھا جاتا ہے، تو پھر اسی اصول کے تحت عرب اقوام کو بھی اسپین پر دعویٰ کرنے کا حق ہونا چاہیے، کہ وہاں وہ صدیوں تک اپنی تہذیب و حکمرانی کے چراغ روشن کرتے رہے۔

رہی بات انگلستان کی، تو اس کی سلطنت کے پسِ پردہ اصل مقاصد کچھ اور ہیں—یہ بحث نارنج، شہد یا رُطب جیسے معمولی چیزوں کی تجارت نہیں، بلکہ سیاسی مفادات، اقتدار اور سامراجی عزائم کی ہے، جنہیں چھپانے کے لیے طرح طرح کے بہانے تراشے جاتے ہیں۔


تشریح:

1. “رندانِ فرانس کا میخانہ سلامت” — یورپ کی تہذیبی مستی


اقبال یہاں فرانس اور یورپ کی عیش پسندی، ان کے تہذیبی غرور اور مادہ پرستی کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

فرانس اس زمانے میں


فکری آزادی،


لادینیت،


شراب و عشرت،


اور انفرادی بے باکی

کی علامت سمجھا جاتا تھا۔



اقبال کہتے ہیں:

یورپ اپنی مستی، رنگینی اور آزادی کے نشے میں ہے، دنیا پر حکومت بھی کر رہا ہے اور اپنی تہذیب کو بہترین بھی سمجھتا ہے۔

---
2. “خاکِ فلسطیں پہ یہودی کا اگر حق…” — دوہرے معیار کا پردہ فاش


انیسویں اور بیسویں صدی کے آغاز میں

یورپ نے فلسطین میں یہودی آبادکاری کی کھلی حمایت کی۔

اقبال کے زمانے میں یہودیوں کا فلسطین پر تاریخی حق کا دعویٰ زوروں پر تھا۔


اقبال کہتے ہیں:

اگر تم ہزاروں سال پہلے کے ایک تاریخی تعلق کو بنیاد بنا کر فلسطین یہودیوں کو دے سکتے ہو تو پھر اسلامی اسپین (اندلس) بھی عربوں کو واپس دینے کے قابل ہے، کیونکہ وہ وہاں آٹھ سو سال حکومت کر چکے!


یہ جملہ یورپ کے دوہرے اخلاقی معیار کو نمایاں کرتا ہے۔



---


3. “مقصد ہے ملوکیتِ انگلِیس کا کچھ اور…” — برطانوی سامراج کی اصل چال


اس دور میں انگلستان دنیا کی سب سے بڑی طاقت تھا۔


عرب دنیا تقسیم کی جا رہی تھی،


نئی ریاستیں بن رہی تھیں،


تیل کی سیاست شروع ہو چکی تھی،


فلسطین کا مسئلہ شدت پکڑ رہا تھا۔



اقبال کہتے ہیں:

انگلستان کے اصل مقاصد سیاسی اور سامراجی ہیں۔

یہ معاملہ نارنج، شہد یا کھجور جیسے چھوٹے مسائل کا نہیں—

بلکہ مشرق وسطیٰ پر قبضہ، تیل کے ذخائر، تجارت اور عالمی حکمرانی کا ہے۔


ان چھوٹے پھلوں کا ذکر طنزیہ ہے، یعنی:

"یہ تو محض بہانے ہیں، اصل میں مقصد کچھ اور ہے!"



---


4. مکمل پیغام


ان اشعار میں اقبال بتاتے ہیں کہ:


یورپ خود کو مہذب کہتا ہے مگر دنیا پر حکمرانی کے لئے اخلاقی اصولوں کو بدل دیتا ہے۔


مشرق کی قوموں کو تقسیم، کمزور اور منتشر رکھنے کے لئے طرح طرح کی دلیلیں گھڑتا ہے۔


فلسطین، اسپین اور عرب دنیا سب اس دوہرے معیار کا شکار ہیں۔



اقبال قاری کو یہ احساس دلاتے ہیں کہ طاقتور اقوام کے فیصلے انصاف پر نہیں بلکہ مفاد پر مبنی ہوتے ہیں۔





Tuesday, 29 July 2025

مسلمانوں کی موجودہ ابتر حالت اور جنگ آزادی میں مسلمانوں کی قربانیاں

مسلمانوں کی موجودہ ابتر حالت اور جنگ آزادی میں مسلمانوں کی قربانیاں


دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ جب تک مسلمان علم، اتحاد، اور کردار کے زیور سے آراستہ رہے، وہ دنیا کی عظیم طاقت بنے رہے۔ لیکن جیسے ہی انہوں نے قرآن و سنت کی تعلیمات سے روگردانی کی، عصری علم کو نظر انداز کیا، زوال اور پستی ان کا مقدر بن گئی۔ آج امت مسلمہ مختلف خطوں میں ظلم، استبداد، اور پسماندگی کا شکار ہے۔کتنی افسوس کی بات ہے کہ وہ قوم جس کی ابتداء اقراء سے ہوتی ہوں ،تعلیمی میدان میں دیگر قوموں سے کافی پیچھے رہ گئی
شکایت ہے مجھے یا رب خداوندان مکتب سے
کہ سبق شاہیں بچوں کو دے رہے ہیں خاکبازی کا 

         آج دنیا بھر کے مسلمان باہمی انتشار، سیاسی غلامی، معاشی بحران اور علمی پسماندگی میں مبتلا ہیں۔ تعلیم کا فقدان، اخلاقی انحطاط، اور قیادت کا بحران مسلمانوں کی زبوں حالی کا اہم سبب ہے۔

کسی شاعر نے سچ کہا:

> خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا



آج امت مسلمہ کو علم و کردار کی دولت سے دوبارہ آراستہ ہونے کی ضرورت ہے۔ دنیا میں مسلمانوں کی تعداد دو ارب سے زائد ہے، مگر وہ عالمی سطح پر سیاسی، سماجی اور اقتصادی لحاظ سے کمزور ہیں۔تعلیمی معیار تو زوال پزیری کے تحت الثرا کو پہچ گیا ہے ۔وہ کہتے ہیں کہ کسی قوم کو تباہ و برباد کرنا ہو تو اس سے اس کی مادری زبان چھین لی جائے وہ قوم خود بخود زوال پذیری کا شکار ہو جائے گی۔ زبان تہذیب دیتی ہے۔یہ حقیقت ہے کہ مذہب کی کوئی زبان نہیں ہوتی مگر اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ ہمارا مذہب اور ہماری تہذیب کی اصل تعلیمات کا منبع ہماری مادری زبان ہی ہوتی ہے۔بھلا ہم اس زبان کی کیسے فراموش کر سکتے ہیں جس میں اسلامی ادب کا خزانہ عربی زبان سے زیادہ موجود ہے۔
                اردو زبان مسلمانوں کی تہذیب، ثقافت، اور علمی ورثے کی آئینہ دار ہے۔ اسی زبان نے جنگ آزادی کے دوران تحریکات کو زبان دی، شعور بخشا، اور اتحاد کا پیغام عام کیا۔ شاعری، نثر، خطابت، اور صحافت کے ذریعے اردو نے مسلمانوں کو بیدار کیا۔

مولانا حالی، علامہ اقبال، اور مولانا ابوالکلام آزاد جیسے مفکرین نے اردو کو ذریعہ بنا کر قوم کی رہنمائی کی۔ اردو زبان صرف رابطے کا ذریعہ نہیں بلکہ ایک فکری اور ثقافتی اثاثہ ہے جسے زندہ رکھنا ہماری قومی اور دینی ذمہ داری ہے۔

>                جس قوم کی زبان مر جائے، اس کی شناخت مٹ جاتی ہے۔  
                ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد مسلمانوں کی     عظیم قربانیوں سے بھری ہوئی ہے۔ 1857 کی جنگ آزادی مسلمانوں کی قیادت میں لڑی گئی۔ یہی وہ جنگ تھی جسے انگریزوں نے ’’غدر‘‘ کا نام دیا، مگر حقیقت میں یہ ’’جنگِ آزادی‘‘ تھی۔

        آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر اس جدوجہد کا عظیم نشان ہیں۔ قربان جاؤں اس عظیم بادشاہ پر جس نے 80 سال کی عمر میں انگریزوں سے لڑنے کے لئے تلوار اٹھائی۔ اپنی سلطنت کو لوٹتے دیکھا۔ اپنے 18 بیٹون کو انڈیا گیٹ پر پھانسی کے پھندے پر لٹکتے دیکھا۔ وہ نہ صرف تخت سے محروم کیے گئے بلکہ انہیں قید کر کے رنگون (برما) میں جلاوطن کر دیا گیا۔ وہاں وہ بے کسی اور کسمپرسی کی حالت میں انتقال کر گئے۔ یہ قصہ مشہور ہے کہ جب بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو بھوک لگی تو ناشتہ کے لئے برتن پیش کیا گیا۔ جب برتن سے کپڑا اٹھایا گیا تو  کیا دیکھتے ہیں کہ برتن میں ان کے ایک بیٹے اور پوتے کے سر کٹے ہوئے ہیں۔ کیا کسی نے تاریخ میں بھی ایسی قربانی دی ہے؟ ان کا کرب انگیز شعر آج بھی دلوں کو چیر دیتا ہے:

> کتنا ہے بدنصیب ظفر دفن کے لیے
دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں

        ظفر نے آزادی کے لیے سب کچھ قربان کر دیا، اور ان کی قربانی مسلمانوں کے جذبہ حریت کی مثال بن گئی۔ اس ملک عزیز کے لئےٹیپو سلطان اور سراج الدولہ نے موت کو گلے لگانا پسند کیا مگر انگریزوں کے سامنے جھکنا پسند نہیں کیا

            علماء نے بھی آزادی کے لیے بے مثال قربانیاں دیں۔ ہزاروں علماء کو انگریزوں نے تختہ دار پر لٹکایا۔ مولانا فضل حق خیرآبادی، مولانا احمد اللہ شاہ، اور ہزاروں گمنام مجاہدین نے اپنا خون وطن کی مٹی میں جذب کر دیا۔لکھنو سے لاہور تک کوئی پیڑ ایسا نہ تھا کہ جس پر کسی عالم کی لاش نہ لٹک رہی ہو

> چمن کو خون سے سینچا ہے ہم نے
ہمارا حق ہے یہ آزادی ہماری

حیدرآباد کے نظام میر عثمان علی کی کاوشوں کا ہی نتیجہ ہے کہ محمڈن انگلو انڈین کالج علی گڑھ مسلم یونیورسٹی بن سکا۔ نظام میر عثمان علی نے ہی حیدرآباد میں عثمانیہ یونیورسٹی کی بنیاد ڈالی جہاں سائنس اور ریسرچ کی کتابوں کو مقامی زبانوں میں ترجمہ کیا جاتا اور ترجمہ کی ہوئی کتابوں سے سائنس، میڈیکل اور انجینئرنگ پڑھائی جاتی مگر افسوس انضمام حیدرآباد کے وقت چند شر پسندوں نے اس ترجمہ گاہ کو جلا دیا جس کی باقیات آج بھی موجود ہے۔اس طرح ہندوستان سائنس کے ایک بڑے خزانہ سے محروم ہوگیا۔ آزادی کے بعد چین کے خلاف جنگ کے لئے  5 ٹن سونا بطور تحفہ دینے والے کوئی اور نہیں بلکہ میر عثمان علی ہی تھے۔

          قصہ کوتاہ یہ کہ مسلمانوں کو اپنی تابناک تاریخ سے سبق   لینا ہوگا۔ اتحاد، تعلیم، اور کردار کے ذریعے ہی ہم موجودہ زبوں حالی سے نکل سکتے ہیں۔ اردو زبان کو فروغ دینا، اپنی تہذیب کو زندہ رکھنا، اور قربانیوں کو یاد رکھنا ہی ہماری بقا کا راستہ ہے۔

> سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا (علامہ اقبال)

Friday, 14 February 2025

اردو زبان کو پارلیمانی زبان کا درجہ دیا جانا

 اردو زبان کو پارلیمانی زبان کا درجہ دیا جانا

             بھارت نے اردو کو پارلیمانی زبان کا درجہ اس کی تاریخی، ثقافتی، اور سماجی اہمیت کی وجہ سے دیا ہے۔ اس کی چند بنیادی وجوہات درج ذیل ہیں:


1. تاریخی اور ثقافتی پس منظر


اردو بھارت کی ایک قدیم زبان ہے، جو صدیوں سے وہاں بولی اور لکھی جاتی رہی ہے۔ مغلیہ دور میں یہ دربار کی اہم زبان رہی اور آزادی کی تحریک میں بھی اس کا نمایاں کردار تھا۔


2. آبادی اور بولنے والوں کی تعداد


بھارت میں لاکھوں لوگ اردو بولتے اور سمجھتے ہیں، خاص طور پر اتر پردیش، بہار، دہلی، تلنگانہ،مہاراشٹر جموں کشمیر راجستھان اور مغربی بنگال جیسے علاقوں میں اردو کو سرکاری طور پر تسلیم کرنا ایک بڑی آبادی کی زبان کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے۔ مزید برآں کہ یہ امر جگ ظاہر بھی ہے کہ اکثر و بیشتر اردو زبان پر ہندی زبان کا ملمع چڑھایا جاتا ہے۔ در حقیقت وہ اردو زبان ہی ہوتی ہے مگر بول چال کی زبان کو ہندی کے دائرے میں شمار کیا جاتا ہے۔ ہندی کو علمی سطح پر  چوتھے نمبر کی زبان بنانے میں اردو کا بہت بڑا ساتھ ہے۔ بھارت میں اردو زبان کی گفتگو کو ہندی زبان گردانہ جاتا ہے


3. آئینی حیثیت اور اقلیتی حقوق


بھارتی آئین کی آرٹیکل 29 اور 30 اقلیتوں کو اپنی زبان، ثقافت، اور تعلیمی ادارے قائم کرنے کا حق دیتا ہے۔ اردو چونکہ بھارتی مسلمانوں اور دیگر کمیونٹیز کی ایک اہم زبان ہے، اس لیے اسے پارلیمانی زبانوں میں شامل کیا گیا۔


4. کثیر لسانی پالیسی


بھارت میں کئی زبانیں پارلیمانی زبانوں میں شامل کی گئی ہیں تاکہ مختلف لسانی گروہوں کو نمائندگی دی جا سکے۔ اردو کو اس فہرست میں شامل کرنا اسی پالیسی کا حصہ ہے۔


5. اردو کا ادبی اور تعلیمی کردار


اردو زبان کا ایک مضبوط ادبی ورثہ ہے، اور یہ بھارت کی مختلف یونیورسٹیوں میں پڑھائی جاتی ہے۔ حکومت اس زبان کی ترویج کے لیے مختلف اقدامات بھی کرتی ہے، جیسے کہ اردو اکادمیوں کا قیام۔


6) اردو  کا قومی زبانوں کے گروپ میں شامل ہونا :

              جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ  بھارت کی کوئی قومی زبان (راشٹریہ بھاشا) نہیں ہے۔ بھارت میں ۲۲ زبانوں کو آئینی زبان (constitutional languages ) کا درجہ حاصل ہے ۔ان 22 زبانوں میں اردو زبان بھی شامل ہے

             قصہ کوتاہ کہ بھارت نے اردو کو سیاسی، ثقافتی، اور لسانی وجوہات کی بنیاد پر پارلیمانی زبان کا درجہ دیا، تاکہ اس کے بولنے والے طبقے کو مناسب نمائندگی اور حقوق دیے جا سکیں۔

Tuesday, 11 February 2025

Wh Question

     For framing Wh question we must ascertain that there are two ways of framing Wh question 

1) Wh For Subject 

2) Wh For Object 

         If you frame a question for knowing subject,  you should frame interrogative sentence without helping verb/Modal Auxiliary. 

       Secondly if you frame a question for knowing object, you should frame sentence with helping verb/modal Auxiliary


👉The usage of helping verb is allowed only when we expect sentence Object as its answer

👉 Look at this example

Tree planting became a natural choice.

(Choose the correct Wh question to get the sentence subject as an answer from the given options.)

a) What became a natural choice ?

b)What did become a natural choice?


To form a Wh-question that asks for the subject of a sentence, we follow these grammar rules:


1. Identifying the Subject in the Given Sentence


Sentence: Tree planting became a natural choice.


Subject: Tree planting


Verb: became


Object/Complement: a natural choice



Since we need to frame a question where the answer is the subject ("Tree planting"), we must use the correct Wh-question structure.


2. Rule for Subject Questions (Without Auxiliary "Do/Did")


When asking about the subject, we do not use auxiliary verbs like do, does, or did.


The structure is: Wh-word + main verb + rest of the sentence?


Example:


What caused the accident? (The subject is "What" and directly replaces the noun that caused the accident.)


Who wrote this book? (The subject is "Who", replacing the person who wrote the book.)




Applying this to our sentence:


"What became a natural choice?" (✓ Correct)


The subject Tree planting is replaced by What, and the verb became remains unchanged.



3. Rule for Object Questions (With Auxiliary "Did")


If we ask about the object, we use do/does/did as an auxiliary verb.


Structure: Wh-word + auxiliary verb (do/does/did) + subject + main verb?


Example:


What did you see? (Object question; "you" is the subject.)


Who did she meet? (Object question; "she" is the subject.)




Applying this rule to our sentence:


"What did become a natural choice?" (✗ Incorrect)


 In short , Firstly we must decide which answer we want to get - whether subject or Object ? .Definitely we want subject as an answer.


If a subject is expected as an answer of Wh , no use of  helping verb is allowed grammatically.



Final Answer:


✔ "What became a natural choice?" (Correct)

✗ "What did become a natural choice?" (Incorrect).


     

Saturday, 18 January 2025

Difference Between Specially And Especially

 Difference Between Specially And Especially 

1. Specially:


Meaning

:کسی خاص مقصد کے لیے یا کسی خاص طریقے سے کئے گئے کام کو ظاہر کرنے کے لئے specially کا استعمال کیا جاتا ہے 


Examples:


This dress was specially designed for the wedding.

(یہ لباس خاص طور پر شادی کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا۔)


The cake was specially baked for her birthday.

(یہ کیک خاص طور پر اس کی سالگرہ کے لیے بنایا گیا تھا۔)




Note ::

 "Specially" کسی مخصوص یا خاص مقصد کی نشاندہی کرتا ہے۔


👈دوسرا فرق یہ ہے کہ specially کا ااستعمال past participle

 ( Participle adjective ) سے پہلے کیا جاتا ہے۔ Participle adjective وہ لفظ ہوتا ہے جو 3 Verb  تو ہوتا ہے مگر یہ verb جملہ میں adjective یعنی صفت کا کام انجام دیتا ہے۔ adjective پہچاننے کے لئے جملہ میں کیسا؟(?Howا)کا سوال کریں۔ حاصل جواب adjective یعنی صفت ہوگا۔ اب ان جملوں پر غور کریں 

You are a specially invited guest. 

آپ خاص طورپر مدعو کئے ہوئے مہمان ہوں

🔆کیسے مہمان ہے ؟ 

جواب : مدعو کئے ہوئے (invited )

یہاں  invited لفظ verb ہونے کے باوجود adjective کا کام انجام دے رہا ہے 

---


2.. Especially:


Meaning

: کسی چیز کی اہمیت پر زور دینا یا کسی خاص چیز کو دوسروں کے مقابلے میں نمایاں کرنا۔


Examples:


I love reading, especially mystery novels.

(مجھے پڑھنا پسند ہے، خاص طور پر جاسوسی ناول۔)


The weather is beautiful, especially in the evening.

(موسم خوبصورت ہے، خاص طور پر شام کے وقت۔)



Note

: "Especially" کسی چیز کی خاصیت یا ترجیح کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ صرف زور دینے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے



---


Quick Comparison in One Sentence:


This cake was specially made for the party, and it is especially delicious!

(یہ کیک خاص طور پر پارٹی کے لیے بنایا گیا تھا، اور یہ خاص طور پر مزیدار ہے!)


تذکیر و تانیث)مذکر اور مونث)

تذکیر و تانیث( مذکر و مونث)

            ایسے غیر ذی روح اسما جنکے آخر میں الف آتا ہے انکی تذکیر و تانیث حرفوں کی تعداد پر منحصر ہوتی ہے۔اگر وہ چار حرفی لفظ ہوتو مذکر اور سہ حرفی ہوتو مونث ہوتا ہے

جیسے :

مذکر : دریا، شوربا ،صحرا

مونث : وفا، ضیا ، رضا

Tuesday, 7 January 2025

زندگی کی بے ثباتی

 رو میں ہے رخش عمر کہاں

دیکھے تھمے

نے ہاتھ باگ پہ ہے نہ پا ہے رکاب می



           مرزا غالب کا یہ شعر زندگی کی بے ثباتی اور آخری عمر کی بے بسی اور ضعف کو بیان کرتا ہے۔

تشریح :

نیالفظ 


رخش = گھوڑا : رخش عمر = عمر کا گھوڑا 


مصرع اولی میں "رخش عمر" (زندگی کا گھوڑا) وقت کی رفتار کو ظاہر کرتا ہے۔ شاعر کہہ رہا ہے کہ زندگی کا سفر اتنا تیز ہے کہ انسان کو اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ یہ کہاں جا رہا ہے۔ یہ زندگی کی بے یقینی اور تیز رفتاری کو بیان کرتا ہے۔

*نئے الفاظ

باگ =  گھوڑے کی لگام

رکاب = زین جس پر پیر رکھ کر گھوڑے پر بیٹھا جاتا ہے


مصرع ثانی میں شاعر کہتا ہے کہ نہ تو ہمارے ہاتھوں میں زندگی کی لگام (باگ) ہے اور نہ ہی ہمارے پاؤں رکاب میں ہیں، یعنی انسان اپنی زندگی پر کوئی اختیار نہیں رکھتا۔ یہ ایک قسم کا شکوہ ہے کہ زندگی ہمارے قابو میں نہیں اور ہم محض اس کے بہاؤ میں بہے جا رہے ہیں۔

علامہ اقبال کا پیغام

  رِندانِ فرانسیس کا میخانہ سلامت پُر ہے مئے گُلرنگ سے ہر شیشہ حلَب کا ہے خاکِ فلسطیں پہ یہودی کا اگر حق ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہلِ عَر...