9 - قطعات (محمد ابراہیم ذوق)
قطعہ نمبر 1
الفاظ معنی
1)پیر زال = بوڑھی عورت مراد دنیا
2) رشتہ الفت = محبت کا رشتہ
3)یہ بال : مراد یہ دنیا
2)معلومات فراہم کرکے سرگرمی مکمل کیجئے
الف) پیر زال کا مطلب : دنیا
ب)ردیف : دے
ج) قافیہ : توڑ ،جوڑ ،چھوڑ
د)ہمزہ اضافت کی ترکیب : رشتہ الفت
02 : قطعہ کی تشریح کیجیے / پیرزال کے مفہوم کی وضاحت کیجئے۔
تشریح :
ذوق زندگی گزارنے کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے کہتےہیں کہ یہ دنیا بہت بے مروت ہے اس لئے اس دنیا سے لگاؤ اور محبت کم ہی رکھنا چاہیے ۔یہ دنیا دل لگانے کا مقام نہیں ہے۔" جس سر کا بال ہے اسی سر میں جوڑنا" کا مفہوم یہ ہے کہ ہمارے دل میں دنیا کی اہمیت اتنی ہی ہونا چاہیے جتنی کہ اہمیت دینے کا حکم ہے۔ دنیا کو اس کے اصل مقام پر ہی رکھنا چاہیے۔ اس سے محبت میں تجاوز نہیں کرنا چاہیے۔ دنیا کو اپنی ضرورت کے لحاظ سے ہی استعمال کرنا چاہیے۔ مگر انسان کی فطرت ہے کہ دنیا کمانے کو ہی اپنی زندگی کا مقصد سمجھ بیٹھتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ دنیا کی محبت میں اتنا پاگل ہو جاتا ہے کہ اپنی آخرت کھو بیٹھتا ہے۔ شاعر اس دنیا سے رشتہ الفت توڑنے کی دوسری وجہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ دنیا کبھی بھی کسی کی نہیں ہوتی چاہے آپ دنیا سے گود سے گور تک رشتہ الفت نبھاتے رہیں۔ یہ پیرزال(دنیا) اتنی بے مروت ہے کہ جب چاہے آپ سے رشتہ توڑ دیتی ہے۔ چاہے آپ دنیا سے وفا کرتے رہیں دنیا آپ کے کام نہیں آتی۔
اس قطعہ میں دنیا کی بے مروتی اور بے وفائی کا اظہار نہایت ہی جامع الفاظ میں کیا گیا ہے۔ شاعر نے صنعت استعارہ کا استعمال کرکے قطعہ کے حسن میں مزید اضافہ کیا ہے۔
قطعہ نمبر 2
الفاظ معانی :
1) اندازکلام دردمند : درد مند لوگوں کی باتوں کا انداز
2) بے درد : بے درد لوگ
3)ہم سخن:ہم کلام ساتھی ،بات چیت کرنے والا ساتھی
4)دل خستہ :تکلیف زدہ، مصیبت زدہ،درد رکھنے والا
5) آہ : کلمہ افسوس ، آہ و زاری، غم میں آہیں بھرنا
6)نالہ : فریاد ،رونا
7)موزوں : مناسب
8)مصرع برجستہ:بے ساختہ مصرع(جملہ)،بناوٹ سے پاک جملہ
02) : تشریح کیجیے / شاعر کی خواہش بیان کیجیے۔
تشریح :
یہ امر فطری ہے کہ کسی کے درد کو وہی شخص اچھی طرح سمجھ سکتا ہے جو خود درد دل رکھتا ہوں۔ غم رسیدہ ہی ایک غم رسیدہ کا درد محسوس کر سکتا ہے۔ وہ شخص کسی کے درد کو کیا جانے جو کبھی کسی تکلیف،دکھ درد سے گزرا ہی نہیں۔ اس لئے شاعر آرزو کرتا ہے کہ میرے ساتھ گفتگو کرنے والا ساتھی(ہم سخن) کوئی مصیبت زدہ(دل خستہ) شخص ہی ہو تاکہ وہ میرا درد پوری طرح سمجھ سکے اور میرا دل ہاتھ میں لے سکے۔ صرف ایسا شخص ہی میری دردمندی کی باتوں (کلام)کو سمجھ سکتا ہے۔ ایسےشخص نے ہی میرا ہمدرد بننا چاہیے۔ ایسا ہمدرد ہی اپنی میٹھی میٹھی باتوں سے میرا درد دور کر سکتا ہے ۔مجھے تسلی دے سکتا ہے۔
شاعر غمزدہ شخص کو بھی مشورہ دیتا ہے کہ درد مند کے سامنے اس کے منہ سے نکلنے والی ہر ایک بات دلکش ہو۔ اس کی بات بھی اتنی دلکش ہونی چاہیے کہ ہم درد شخص غم زدہ شخص کی طرف متوجہ ہوجائے اور اس کے غمزدہ تجربات کو خود سےجوڑ کراس سے اپنائیت محسوس کرے اور اس کو سمجھ سکے۔ ہمدرد شخص غمزدہ شخص کی طرف اسی وقت متوجہ ہوگا جب سنائی گئیں باتیں سادگی کے ساتھ کہی گئیں ہوں۔۔ اس میں بناوٹ نہ ہو۔ اس کی آہ و زاری مناسب اور بے ساختہ ( مصرع برجستہ) ہو۔
اس قطعہ میں شاعر نے مخاطَب (سننے والا) اور مخاطِب (بولنے والا) دونوں کے لیے مشورے دئے ہے۔مخاطَب دل خستہ ہونا چاہیے اور مخاطِب جو بھی بات کرے وہ دلکش موزوں اور برجستہ ہونی چاہیے۔
قطعہ نمبر 3
الفاظ معانی:
1)آبلہ : چھالہ
2) پا : پیر ، پاؤں
3)مور : چیونٹی
4) تنور : تندور ، روٹی سیکھنے کی بھٹی
5)تنور طوفان : قرآن میں اللہ نے ارشاد فرمایا :
حَتّٰۤی اِذَا جَآءَ اَمۡرُنَا وَ فَارَ التَّنُّوۡرُ ۙ قُلۡنَا احۡمِلۡ فِیۡہَا مِنۡ کُلٍّ زَوۡجَیۡنِ اثۡنَیۡنِ وَ اَہۡلَکَ اِلَّا مَنۡ سَبَقَ عَلَیۡہِ الۡقَوۡلُ وَ مَنۡ اٰمَنَ ؕ وَ مَاۤ اٰمَنَ مَعَہٗۤ اِلَّا قَلِیۡلٌ ﴿۴۰﴾
یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آپہنچا اور تنور ابلنے لگا ہم نے کہا کہ اس کشتی میں ہر قسم کے ( جانداروں میں سے ) جوڑے ( یعنی ) دو ( جانور ، ایک نر اور ایک مادہ ) سوار کرا لے اور اپنے گھر کے لوگوں کو بھی سوائے ان کے جن پر پہلے سے بات پڑ چکی ہے اور سب ایمان والوں کو بھی اس کے ساتھ ایمان لانے والے بہت ہی کم تھے
تنور یا التنور ایک روٹی سیکھنے کی بھٹی ہوتی ہے۔حضرت نوح کے وقت بارش اتنی زیادہ ہوئی تھی کہ زمیں سے پانی ابلنے لگا۔یہاں تک کہ آگ کی بھٹی "تنور" سے بھی پانے ابلنے لگا اور ایک طوفان کی شکل اختیا ر کرگیا۔شعر کا مطلب یہ ہے کہ تنور جیسی معمولی چیز بھی طوفان کی وجہ بن سکتی ہے جو دنیائےعشق کو تباہ کر سکتی ہے۔
طوفان نوح کی مزید معلومات :
https://www.facebook.com/294482190722019/posts/1670330796470478/
(*)سرگرمی نمبر 01
۲) قطعہ سے معلومات اخذ کرکےسرگرمی مکمل کیجئے
1)صنعتیں : الف) تضاد۔ ب)مبالغہ
2)ہمزہ اضافت : آبلۂ پائے مور
3)زیر اضافت کے الفاظ : راہ عشق،رہ دشوار ،تنور طوفان
4)شاعر کا تخلص = ذوق
You can take help from textbook of class : 7,8👇
سرگرمی نمبر 02: مندرجہ ذیل کی استحسانی وضاحت (تشریح) کیجیے۔/ 'راہ عشق' کی خصوصیات بیان کیجیے
تشریح :
شاعر کہتا ہے کہ عشق کی راہ سے گزرنا آسان نہیں ہے۔ یہ بہت ہی دشوار گزار راستہ ہے۔ اس لیے راہ عشق میں قدم سنبھال کر رکھنا چاہیے۔ یہ عام فہم بات ہے کہ راستے میں موجود معمولی سی چیونٹی کسی راہگیر کے لیے کوئی رکاوٹ نہیں بنتی۔چیونٹی اس کا راستہ نہیں روک سکتی۔ مگر راہ عشق کا معاملہ الگ ہے۔ اس راہ میں چیونٹی جیسی معمولی چیز بھی بہت بڑا رخنہ پیدا کر سکتی ہے۔ یہاں تک کہ چیونٹی کے پاؤں کا چھالا بھی عشق کی بربادی کی وجہ بن سکتا ہے۔چیونٹی کے پاؤں کے چھالے کےاندر موجود پانی بھی عشق کی کشتی کو ڈبونے کے لیے سیلاب اور تلاطم کا کام کر سکتا ہے۔ لہذا عشق کی راہ میں معمولی سے معمولی باتوں سے چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔ راہِ عشق میں چھوٹی بڑی رکاوٹیں آجائے تو انہیں فوراً دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اسی بات کو شاعر نے صنعت تلمیح کا استعمال کرتے ہو ئےسمجھایا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ جس طرح حضرت نوح کے گھر کے تنور سے نکلنے والے پانی نے ایک طوفان کی شکل اختیار کر لی تھی جس میں پوری دنیا ڈوب گئی تھی اسی طرح چیونٹی کے پیر کے چھالے کا پانی بھی طوفان برپا کر سکتا ہے۔ اس لیے راہِ عشق میں معمولی سے معمولی باتوں پر توجہ دینی چاہیے۔
شاعر نے اس قطعہ میں صنعت تلمیع کے علاوہ صنعت تضاد ،صنعت استعارہ اور صنعت مبالغہ بھی استعمال کیا ہے۔
قطعہ نمبر 4
الفاظ معانی :
1)جلوئہ گل ہائے رنگا رنگ:مختلف قسم کے پھولوں کا نظارہ
2)نرگس : ایک پھول کا نام جو آنکھ سے مشابہ ہوتا ہے
3)وا : کھلی ہونا (چشم وا ہے : آنکھ کھلی ہے )
4)آخرش : آخر کار
5) خزاں : پت جھڑ کا موسم
6)نشو و نما سے پہلے : مراد پیدائش سے پہلے ،نیستی
7)کوئی دم : کچھ وقت کے لیے
سرگرمی نمبر 01
سرگرمی نمبر 02 :قطعہ کی تشریح کیجییے / شاعر کو جس بات کا یقین ہے اسے تحریر کیجیے
تشریح :
یہ دنیا بے ثبات ہے۔ نا پائیدار ہے۔ زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں ہے۔ اس کڑوی حقیقت کو بیان کرتے ہوئے شاعر کہتا ہے کہ اس دنیا میں جب تک ہماری آنکھیں کھلی رہتی ہیں اس وقت تک ہم طرح طرح کے رنگوں کے پھولوں کا نظارہ کرتے رہتے ہیں۔ یعنی جب تک ہم زندہ ہیں ہم اس دنیا کی رنگارنگی کا مزہ لیتے رہتے ہیں۔ مگر یہ سرمستی کب تلک؟ آخر زندگی میں موسم بہار کب تلک؟ ایک نہ ایک دن ہماری زندگی اختتام کو آجاتی ہے اور ہماری ہستی ویسی ہی ہو جاتی ہے جیسے کہ ہم پیدائش سے پہلے تھے یعنی ہم کچھ نہیں تھے۔ ہم نیستی میں تھے۔ جس طرح مختلف انواع کے پھول موسم بہار میں کھل اٹھتےبیں اور موسم خزاں آنے پر ناپید ہو جاتے ہیں ٹھیک اسی طرح ہماری بھی زندگی ہے۔ مگر اللہ کا شکر ہے کہ کچھ وقت کے لئے ہی سہی مگر اس نے ہمیں موسم بہار کا سماں دیکھنے کا موقع دیا۔ اور ہم مختلف انواع کے پھولوں کو دیکھ سکے۔ اور زندگی کے مزے لے سکیں۔ ورنہ موسم خزاں میں تو ہم چمن میں موجود گل بوٹے سبزہ اور ہوا دیکھ نہیں سکتے تھے۔
شاعر نے اپنی آنکھوں کے لیے تشبیہ(مثل نرگس) کا استعمال کرکے یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ اس نے دنیا کے نظاروں کو اپنی بڑی بڑی آنکھوں سے بڑے تجسس اور مسرت کے ساتھ دیکھا ہے۔ نرگس کا پھول آنکھ سے مشابہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ دنیا کے لیے چمن کا استعارہ استعمال کیا گیا ہے۔صنعت مزیل (گلشن ،گل) اور صنعت مراعات النظیر کا بھی استعمال کیا گیا ہے۔
نوٹ : ٹیچر حضرات کو چاہیے کہ وہ طلبہ کی مدد کریں نیز اردو لغت کے استعمال کی عادت ڈلوائیں)
ماشا اللہ بہت خوب سر
ReplyDeleteMashallah
ReplyDeleteماشاءاللہ بہت بہت شکریہ
ReplyDelete