XI CLASS URDU

Followers

About Me

My photo
Manora ,District :Washim 444404, Maharashtra , India

Sunday, 17 October 2021

7- زندگی سے ڈرتے ہو

   7- زندگی سے ڈرتے ہو

                        (ن۔م۔ارشد)

الفاظ معنی

1)رشتہ ہائے آہن:مضبوط رشتہ

2)حرف اور معنی کے رشتہ ہائےآہن سے، آدمی ہے وابستہ

 آدمی کے دامن سے زندگی ہے وابستہ: آدمی اور دوسرے انسانوں کی زندگی کے درمیان میں ایسا ہی رشتہ ہے جیسے کہ  حرف اور اس کے معنی کے درمیان میں رشتہ ہے۔ انسان اس رشتے کو توڑنے سے نہیں ڈرتا

3) پہلے بھی تو گزرے ہیں دور نارسائی کی: قدیم زمانوں میں ایسی مثالیں ملتی ہے جب ظلم و ستم کے خلاف آواز اٹھائی گئی تھی۔ اور ناکامی ہاتھ لگی تھی۔

4) شب زباں بندی : زبان سے اظہار کرنے کی پابندی۔

5)رہِ خدا وندی:حکمرانوں کا طریقہ یا اصول

6)دیو کا سایہ، رات کا لبادہ:خوف و اندیشوں کا اثر، ظلم و ستم کا دور

7)ازدحام انسان: ہجوم ، بھیڑ، کارواں

8)راہرو :راہ گیر ،مسافر

             خلاصہ

          اس دور خود غرضی میں ایک انسان دوسرے انسان کے خون کا پیاسا ہے۔ آدمی آدمی سے لڑتے رہتا ہے۔ اس لیے انسان کو زندگی سے ڈر لگنے لگا ہے۔ وہ آدمی سے ڈرتا ہے۔ انسان انسان سے ڈرتا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ آدمی اور دوسرے انسانوں کی زندگی ایک سکے کے دو پہلو ہیں۔ وہ ایک دوسرے کے بغیر محفوظ نہیں ہیں۔ اگر انسان  دوسری کی زندگی کو دوزخ بناتا ہے تو وہ خود بھی محفوظ نہیں رہ سکتا۔ لہذا ہم دونوں کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کر سکتی۔ جس طرح سے حرف کا اس کے معنی سے تعلق ہوتا ہے۔ اسی طرح انسان اور زندگی کا رشتہ ہے۔ زندگی آدمی کے دامن سے بندھی ہوئی ہے۔ آدمی کو اس بندھن کو نبھانے کی فکر کرنی چاہیے۔ اسے ڈرنا چاہیے کہ یہ رشتہ نہ ٹوٹ جائے۔ مگر آج کے دور کا انسان دوسری باتوں سے ہی ڈرتا رہتا ہے۔ وہ ان کہی باتوں سے ڈرتا ہے۔ جو گھڑی ابھی نہیں آئی اس گھڑی کی آمد کی آگہی سے ڈرتا ہے۔

          دور حاضر کے انسانوں کو اپنے اوپر کئے جانے والے ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کی ترغیب دیتے ہوئے شاعر کہتا ہے کہ  ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کو معمولی گرداننا اور ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنا انسان کے ڈر اور ناامیدی کو بتاتا ہے۔ آج کا آدمی ظلم کو برداشت کیے ہوئے ہے۔۔ آج انسان پر اپنے خیالات کے اظہار کی پابندی ہے۔ اس پر  خیال کی اظہار کی پابندی لگا دی گئی ہے۔ مگر آج انسان کی دماغ ڈرکی وجہ سے اتنی مفلوج ہوگئے ہیں کہ  آدمی اظہار کی پابندی اور ظلم و ستم کو حکمرانوں کا حق سمجھ کر اسے حکمرانوں کا طریق حکومت کالازمی جز سمجھ بیٹھا ہے۔

         شاعر آج کے انسان کی ہمت باندھتے ہوئے کہتا ہے کہ  قدیم زمانوں میں بھی نا انصافی اور ظلم و ستم اور اظہار کی پابندیاں لگائی گئیں ہیں۔ مگر ان ظالموں کے خلاف آواز اٹھائی بھی گئی ہے۔ کئی بار نا کامیابی کا سامنابھی کرنا پڑا ہے۔چونکہ حق کے سامنے باطل کبھی نہیں ٹکتا، ان حکمرانوں کی طریقے سب ختم ہوگئےاور اس کی جگہ امن و امان قائم ہو گیا۔ ہم بھی اگر ظلم و ستم و ناانصافی کو ختم کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں بھی آواز اٹھانی ہوگی۔جہد مسلسل کرنی ہوگی۔

         ظلم کے خلاف اٹھنے والی آواز ابتداء میں اکیلی تنہا ہوتی ہے۔مگر لوگ ملتے جاتے ہیں اور ایک جمِ غفیر بن جاتا ہے جو ظلم کے اندھیرے کو ختم کر کے انصاف کی روشنی  پھیلا دیتا ہے۔ یہ امید کی روشنی آپ ،میں اور سماج کا ہر فرد پیدا کر سکتا ہے

         آخری بند میں شاعر نے ظلم و ستم اور نا انصافی کی تاریکی کے ختم ہونے اور روشنی کی کرن طلوع ہونے کی  خوشخبری دی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ظلم و ناانصافی کے خلاف آواز اٹھانے کی وجہ سے عوام کے دل و دماغ میں جو خوف اور اندیشہ(ڈر کا سایہ) تھا وہ ختم ہوگیا۔ ناانصافی کی اندھیری رات(رات کا لبادہ) بھی ختم ہوگئ۔ آخر میں شاعر مظلوم اورڈرے ہویے لوگوں کونڈر رہنے کا درس دیتے ہوئے کہتا ہے کہ جب انسان ظلم کے خلاف اور ناانصافی کے خلاف آواز اٹھاتا ہے تو ابتدا میں وہ اکیلا ہوتا ہے۔ لیکن  دھیرے دھیرے لوگ ملتے جاتے ہیں اور کارواں(ازدحام انساں) بنتا جاتا ہے۔ جوش جنوں کی فراوانی اس اندھیری رات کو اجالے میں تبدیل کر دیتی ہے اور لوگ اپنی کامیابی پر ہنسنے اور مسکرانے لگتی ہیں۔ خوشیوں سے سارا شہر بھر جاتا ہے۔ مگر یہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب آپ نہ ڈرےاور مشکلات کا ڈٹ کر سامنا کرے۔


https://youtu.be/21e11iDAmuo



..........................................................................................................................

 درج ذیل درسی نظم کے اقتباس  کا بغور مطالعہ کرکے دی ہوئی سرگرمیاں ہدایت کے مطابق مکمل کیجئے











نوٹ : اپنے طلبہ کو لغت اور ڈکشنری کے استعمال کی عادت ڈالیں ۔ لغت اور ڈکشنری کا استعمال تفہیم کے عمل کو آسان بنا دیتا ہے ۔نیز زبان دانی میں کلیدی رول ادا کرتا ہے

لغت کو اس لنک کی کاپی کو پلے اسٹور میں پیسٹ کرکے  ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں:

http://play.google.com/store/details?id=com.vovoapps.lughatoffline


6 comments:

اردو زبان کو پارلیمانی زبان کا درجہ دیا جانا

 ا ردو زبان کو پارلیمانی زبان کا درجہ دیا جانا              بھارت نے اردو کو پارلیمانی زبان کا درجہ اس کی تاریخی، ثقافتی، اور سماجی اہمیت کی...